اسرائیل اور بھارت کا خطرناک منصوبہ

Nov 18, 2024

سکندر خان بلوچ

’’ یم کپور‘‘یہودیوں کا مقدس دن ہے۔ 1973ء میں یم کپور کے دن مصر اور شام نے ملکر اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ اُس وقت گولڈا مئیر اسرائیل کی وزیراعظم تھیں۔ ابتدائی شکست کے بعد یہ خاتون بہت دلیری سے لڑی اور جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ جنگ کے بعد کسی مغربی صحافی نے سوال کیا:’’میڈم وزیراعظم جنگ کا یہ جذبہ آپ نے کہاں سے لیا؟‘‘ ’’مسلمانوں کے پیغمبر سے‘‘ گولڈا مئیر نے جواب دیا۔ ’’وہ کیسے؟‘‘صحافی نے مزید پوچھا۔ گولڈا مئیر نے بتایا کہ ’’جب مسلمانوں کے پیغمبر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو مدینہ کے اردگرد کافی یہودی قبیلے آباد تھے ۔یہ مالی طور پر بھی آسودہ حال تھے اور طاقت کے لحاظ سے بھی کافی مضبوط تھے۔ دس سالوں میں مسلمانوں نے ان تمام قبائل کو شکست دے کر ختم کر دیا۔دس سال بعد جب مسلمانوں کے پیغمبر اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے جوتے پھٹے ہوئے تھے۔ کپڑوں پر پیوند لگے تھے۔ گھر میں کفن تک کے پیسے نہ تھے حتیٰ کہ دئیے میں تیل تک نہ تھا لیکن گھر کی دیور پر سات تلواریں لٹک رہی تھیں۔ تاریخ یہ نہیں دیکھتی کہ کونسی قوم کتنی امیر تھی؟ تاریخ صرف فاتح اور مفتوح کا یاد رکھتی ہے۔‘‘ وزیراعظم نے جواب دیا۔
تاریخ کے بھی بڑے عجیب فیصلے ہوتے ہیں۔ یہودیوں نے جنگ کا جذبہ مسلمانوں سے لیا اور اس جذبے کو سینے سے لگالیا۔نتیجتاًآج ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل 58مسلمان ممالک پر بھاری ہے۔مسلمان جن کی تلواروں نے بڑی بڑی سلطنتوں کو تہہ تیغ کیا آج بے کس اور بے بس نظر آتے ہیں۔ دنیا میں ہزاروں مذاہب ہیں۔ یہودیوں کی کسی کے خلاف عداوت نہیں لیکن مسلمانوں کو قطعاً برداشت نہیں کرتے۔ ایک سعودی کرنل نے کہا تھا:’’ کہنے کو ہم دونوں قومیں رشتہ دار(کزنز)ہیں لیکن ہم دونوں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔‘‘ اس چھوٹے سے ملک اسرائیل نے تمام مسلمانوں کو آگے لگا رکھا ہے۔ یہ لوگ تاریخ کا فیصلہ نہیں بھولے۔ اپنی چودہ سو سال پہلے کی شکست کا بدلہ اب تک لے رہے ہیں۔ جو بھی کوئی مسلمان ملک اُوپر اُٹھنے کی کوشش کرتا ہے یہ اُس کی طاقت بذریعہ طاقت تباہ کر دیتے ہیں۔ مصر نے نیوکلیئر سہولت حاصل کرنے کی کوشش کی تو ’’موساد‘‘ نے یہ مشینری مصر پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دی۔ صدام حسین نے عراق میں نیوکلیئر پلانٹ لگانے کی کوشش کی تو اسرائیلی بمباروں نے اتنی دور جا کر بمباری سے سارا علاقہ تباہ کر دیا۔ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بن گورین نے کہا تھا کہ’’ ایٹمی توانائی کسی مسلمان ملک کو حاصل نہیں کرنے دیں گے اور یہ سو فیصد اُس پر عمل کر رہے ہیں۔‘‘
 1971ء کی جنگ کے بعد افواہ بڑی گرم تھی اور انٹیلی جنس کی خبر بھی تھی کہ بھارت اپنا ایٹم بم بنا رہا ہے۔ویسے بھارت نے ایٹمی توانائی کے حصول کا منصوبہ تو 1946ء میں یعنی آزادی سے بھی ایک سال پہلے بنایا تھا اور بمبئی کے نزدیک نیوکلیئر پلانٹ قائم کیا تھا۔ بہرحال جب بھارتی بم کی اینٹیلیجنس رپورٹ جناب بھٹو صاحب کے پاس پہنچی جو اُس وقت پاکستان کے وزیراعظم تھے تو انہوں نے یہ سہولت اپنے ملک کے لئے بھی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اُن کا یہ بیان :’’ ہم گھاس کھالیں گے ، پتے کھا لیں گے حتیٰ کہ بھوکے رہ لیں گے لیکن اگر بھارت بم بناتا ہے تو ہم اپنا بم ضرور بنائیں گے۔‘‘ تو مرحوم نے اس پروجیکٹ پر کام شروع کروایا۔ جوں ہی یہ خبر عام ہوئی تو بھارت اور اسرائیل کے کان کھڑے ہوئے۔ دونوں نے ملکر پاکستانی ایٹمی ری ایکٹر بمباری کر کے تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسرائیل کی ڈائیریکٹ پہنچ تو کافی مشکل تھی لہٰذا اُن کی خواہش تھی کہ بھارت اُن کا ساتھ دے اوروہ بھارتی ہوائی اڈے استعمال کریں۔1979ء میں’’ بھارتی را ‘‘اور’’ اسرائیلی موساد‘‘ نے ملکر ہمارے نیوکلیئر پروگرام کی مانیٹرنگ شروع کی۔ 1982ء میں منصوبہ بنا کہ اسرائیلی جہاز بھارت کے جام نگر ائیر پورٹ سے اُڑ کر شمالی ہندوستان میں کسی سیٹلائٹ اسٹیشن پر ری فیولنگ کریں گے اور کہوٹہ پر بمباری کر کے جہاز فوراً واپس آجائیں گے۔ پاکستانی انٹیلی جنس نے یہ خبر فوری طور پر صدر پاکستان ضیاء الحق تک پہنچائی تو اُس نے نہ صرف فوری حفاظتی اقدامات کئے بلکہ اسرائیل اور بھارت دونوں کو تباہ کن جوابی حملے کی دھمکی دی جس سے آخری لمحے یہ منصوبہ ملتوی کر دیا گیا۔ 
دوسرا منصوبہ بھارت کے ساتھ ملکر 1984ء میں عمل درآمد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس مقصد کے لئے بھارت نے اپنے جیگوار طیارے تیار کئے۔ Combat College میں پائلٹس کی ریہرسل کروائی گئی۔اسرائیل کی طرف سے F-16اور F-15 تیار کئے گئے۔ F-16 بمباری کے لئے اور F-15 اُن کی حفاظت کے لئے ۔ اندرا گاندھی نے یہ منصوبہ منظور کر کے دستخط کر دئیے۔ اسرائیلی طیارے اُدھم پور کے ہوائی اڈے پر آچکے تھے۔ ہماری انٹیلی جنس بھی بہت متحرک تھی جو لمحہ بہ لمحہ ان دونوں ممالک کی حرکات پر نظر رکھ رہی تھی۔ ضیاء الحق کو اطلاع دے دی گئی۔ ضیاء الحق ایک دلیر اور مضبوط اعصاب کا مالک فوجی آفیسر تھا۔ ضیاء الحق نے فوری طور پر اقوام متحدہ میں اپنے سفیر جناب احمد کمال صاحب کو کہا کہ معاملہ کوفی عنان سیکرٹی جنرل اور صدرریگن ِ امریکی صدر کے نوٹس میں لایاجائے۔ ساتھ ہی اس نے اسرائیلی وزیراعظم کو بتایا :’’ آپ ہم پر حملہ کرنا چاہتے ہیں آجائیں ہم تیار ہیں لیکن پاکستان نہ تو عراق ہے اور نہ ہماری فوج عراقی فوج ہے۔‘‘ بھارت کے ائیر چیف کو پاکستانی ائیر چیف کی معرفت پیغام بھیجوایا گیا ’’ آپ آجائیں ہم تیار ہیں۔ پاکستان سو نہیں رہا لیکن اس حملے کے بعد تمہارا جو حشر ہو گا دنیا دیکھے گی۔‘‘ اس پیغام کے ملتے ہی اندرا گاندھی اس منصوبے سے پیچھے ہٹ گئی۔ دراصل اُسے شک ہوگیا تھا کہ شاید پاکستان نے ایٹم بم تیار کر لیا ہے اور کہیں بھارت پر استعمال ہی نہ کر دے۔ 
اب ضیاء الحق نے اپنے کمانڈوز اورAck Ack  گنز کہوٹہ پہنچا دیں۔ ائیر فورس کو الرٹ کر دیا گیا۔ ائیر فورس کے تین گروپ تیار کئے گئے۔ پہلے گروپ کی ذمہ داری تھی کہ فضاء میں بطور سنتری پرواز کرے گا۔ اسرائیل اور انڈین جہازوں کو بلا روک ٹوک پاکستان کے اند ر آنے دیا جائے گا۔ حملہ روکا نہیں جائے گا بلکہ اسے ناکام بنایا جائے گا۔ انہیں پاکستانی علاقے میں گرائیں تا کہ جوابی حملے کا جواز پیدا ہو سکے۔ دوسرے گروپ کو حکم تھا کہ وہ فوری طور پر بین الاقوامی سرحد عبور کر کے بھارتی ایٹمی ری ایکٹر کو تباہ کر دے۔ تیسرے گروپ کو حکم دیا گیا کہ وہ صحرائے نجد میں اسرائیلی ایٹمی ری ایکٹر تباہ کرے گا۔ یہ ہدف پاکستان سے کافی دور تھا۔ اسرائیل جانے والے جہاز فیول کی کمی کی وجہ سے واپس نہیں آسکتے تھے یہ یک طرفہ مشن تھا۔ ان کے لئے حکم تھا کہ جہازوں کو وہیں گرا دیں ۔ مزید حکم دیا گیا چونکہ یہ خود کش مشن ہے صرف وہی پائلٹ جائیں جو شہادت کے طلبگار ہوں ۔ چار پائلٹس کی ضرورت تھی دس والنٹیئر ہو کر سامنے آگئے اور سب جانے کے لئے بے قرار تھے۔ ان کا جوش دیکھ کر قرعہ اندازی کے ذریعے چار پائلٹس کا انتخاب کیا گیا۔ ہماری جہازوں کی نقل و حرکت امریکی سیٹلائٹ نے پک اپ کی جس کی اطلاع فوری طور پر صدر امریکہ کو دی گئی۔ اُس نے بھارتی اور اسرائیلی سفیروں کو فوری بلا کر وارننگ دی کہ اگر تم لوگوں نے اپنے منصوبے پر عمل کیا تو پاکستان تمہاری سوچ سے بھی زیادہ تباہی لائے گا۔یہ پیغام جب دونوں حکومتوں کو پہنچا تو اُن کی پتلونیں ڈھیلی ہو گئیں اور یہ منصوبہ فوری طور پر ختم کر دیاگیا۔ Well Done!جناب ضیاء الحق۔ پاکستان زندہ باد!

مزیدخبریں