ایک درویش نے کہا تھا کہ تمام الہامی کتابوں میں اللہ تعالیٰ نے ہی اپنا موقف بیان کیا ہے کہ میں نے فرشتوں کو آدم کے سجدے کا حکم دیا۔ سبھی جھک گئے۔ صرف ابلیس نے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں انکار کیااور وہ نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔ ابلیس کا موقف ایک فریق (اللہ تعالیٰ) کی زبانی ہی اب تک پہنچا ہے۔ جب تک اس کا موقف خود اس کی زبانی ہم تک نہ پہنچ پائے۔۔۔گرچہ نقل کفر کفر نباشد۔ پھر بھی کیا بات مکمل کرنا بہت ضروری ہے؟
یہ درویشانہ،بیباکانہ قول کالم نگار کے ذہن میں تب آیا جب اسکے ہاتھوں سکندرمرزا کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب پہنچی۔ اللہ والے اپنے اللہ سے دل لگی کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ وہ ’’با خدا دیوانہ باشد‘‘کی چھوٹ پاتے ہیں لیکن’’بامحمد ہوشیار‘‘رہتے ہیں۔ تبھی تو گولڑہ شریف کے پیر مہر علی شاہ اپنی نعت ختم کرتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہتے پائے گئے:
’’کتھے مہر علی کتھے تیری ثناگستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں‘‘۔
’’جنرل سکندر مرزا کی یادداشتیں‘‘نامی سوا سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کا انتساب پاکستان کے تاریخ سے ناآشنا لوگوں کے نام ہے۔ یہ ہماری تاریخ ہے۔ تاریخ غلط یا صحیح نہیں ہوتی، تاریخ ہوتی ہے۔ صراط مستقیم اختیار کر کے منزل تک پہنچنے کے لئے اس سے آگاہی لازم ہے۔ جنرل سکندر مرزا پاکستان کے آخری گورنر جنرل، پہلے منتخب صدر، پاکستان کا پہلا آئین نافذ کرنے والے، پھر اسے توڑنے والے، پاکستان میں پہلا انقلاب لانے والے اور پہلی مرتبہ مارشل لاء لگانے والے شخص تھے۔ ان کی یادداشتیں ہماری قومی تاریخ کی اہم دستاویزات ہیں۔ یہ پاکستان کے ابتدائی برسوں کے اہم واقعات ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان کا سیاسی اور فوجی ڈھانچہ کھڑا ہوا۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی ان یادداشتوں کے اردو مترجم عطاء شاد کے بقول: ’’اور جن کا سایہ شاید ابھی تک دراز ہے‘‘۔
1958ء میں پہلی مارشل لاء کیوں لگائی گئی؟ جنرل سکندر مرزا اسے یوں بیان کرتے ہیں: ’’مجھ پر فوج کی طرف سے مارشل لاء کا اعلان کرنے تک کوئی دباؤ نہیں تھا۔ فرمان جو میری تحریر تھی، کسی کی مدد کے بغیر میں نے خود تیار کیا تھا۔ یہ بیان کیونکہ پاکستان کے مسائل کے بارے میں میرے سوچے سمجھے خیالات کی عکاسی کرتا ہے لہذا میں اس کا مکمل متن یہاں پھر سے دے رہا ہوں۔ کالم میں مکمل متن نقل کرنے کی بجائے صرف اس کی ابتدائی سطریں ہی نقل کی جا رہی ہیں۔ ’’گذشتہ دو سال سے میں انتہائی فکر مندی سے اقتدار کے حصول کی وہ جنگ دیکھ رہاہوں جن میں بدعنوانیاں اپنے عروج پر ہیں۔ انتہائی شرمناک طور پر سادہ لوح، دیانتدار، محب وطن اور جفا کش عوام کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ نظم و ضبط ختم ہو چکا ہے اور سیاسی اغراض کے لئے اسلام کو انتہائی بے شرمی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان میں یقینا چند قابل احترام مستثنات بھی ہیں لیکن انتہائی اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ملک کے معاملات میں وہ انتہائی غیر موثر ہیں۔ ان انتہائی نفرت انگیز سرگرمیوں کے نتیجے میں بہت چھوٹی سطح تک پر’’آمریت‘‘کا راج ہے۔ مہم جو اور استحصال پسند عوام کو انتہائی ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر اپنی بے ایمانیوں کے ذریعے دولت لوٹ رہے ہیں‘‘۔
کالم نگار نہایت دیانتداری سے سوچ رہا ہے کہ ہمارے لئے مکمل متن کی بجائے یہ چند سطریں ہی کافی و شافی ہیں۔ بے شک آرمی چیف آگے بڑھیں۔ سیدھے سبھاؤ چٹے دن سامنے آئیں۔ ہمیں اس جھوٹی جمہوریت سے نجات دلائیں۔ لیکن اپنے سارے کئے دھرے کی ذمہ داری بھی قبول کریں۔ اسی متن کے آخر میں سکندر مرزا نے عوام کی جمہوریت سے دلچسپی کے احوال سناتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں کراچی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوئے ہیں، جن میں صرف بیس فیصد رائے دہندگان نے اپنے ووٹ کا استعمال کیااور ان میں سے بھی پچاس فیصد بوگس تھے۔ کالم نگار سوچ رہا ہے کہ وہ لوگ بھولے نہیں تھے، خوب جانتے بوجھتے تھے کہ پاکستان میں سب سے غیر موثر اور غیر اہم عنصر ہمارے ووٹ ہی تو ہیں۔ کونسا ووٹوں سے ہار جیت کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے۔
پچھلے ہی دنوں پاکستان میں ہونے والے الیکشن میں ووٹرز نے پوری دلچسپی لے کر کونسا تیر مار لیا ہے؟ ویسے ان ووٹروں کا مختلف نشانات تلے عمران خان کے امیدواروں کو ڈھونڈ لینا کمال ہے۔ نصف صدی بعد بھی ہمارے وہی حال ہیں فقیروں کے۔
کتاب کا سولہواں باب مدیرمعیار محمود شام کے قلم کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے لکھا:’’یہ سوال ہماری تاریخ کا اہم ترین سوال ہے کہ سکندر مرزا نے مارشل لاء کیوں لگایا‘‘۔ اس کا جواب ایک نجی گفتگو میں لندن میں سکندر مرزا نے بڑے خوبصورت انداز میں دیا تھا۔ سکندر مرزا نے کہا ’’پاکستان میں سیاست ایک بند گلی بن چکی تھی۔ مجھے اس میں راستہ بنانے کے لئے مارشل لاء نافذ کرنا پڑا‘‘۔پاکستان میں سیاست کو بند گلی بنانے والے کون ہیں؟ اگر آپ جانتے ہوتو کالم نگار کو ضرور مطلع فرمائیں۔
پچھلے کئی دنوں سے فیس بک پرایک سابق انڈین آرمی چیف کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں ریٹائرڈ لائف بسر کرنے کا تذکرہ ہمیں ’’قومی احساس کمتری‘‘ میں مبتلا کئے ہوئے تھا۔
محمود شام کی زبانی جنرل سکندر مرزا کے بارے یہ سطریں پڑھ کر ہمیں بہت تسکین اور تشفی ہوئی ہے۔ آپ بھی پڑھ دیکھ لیجئے۔ ’’طویل سرکاری ملازمت کے دوران سکندر مرزا نے کوئی جائیداد نہیں بنائی بلکہ بھارت میں جو جائیداد چھوڑ کر آئے تھے اس کا کلیم تک داخل نہیں کیا۔ اس طرح انہیں مہاجر ہونے کے باوجود کچھ نہیں ملا۔ جب وہ صدر مملکت کے عہدے پر پہنچے تو انہوں نے وہ زمین جو انہیں اور دوسرے ممتاز افراد کو غلام محمد بیراج کے ساتھ ملی تھی واپس کر دی۔ اس میں سے 200ایکڑ ایوب خاں نے لے لی اور باقی جنرل موسیٰ نے۔ سکندر مرزا نے یہ زمین اس لئے واپس کر دی تھی کہ ان کے نزدیک صدر مملکت سے زیادہ کئی اور لوگ اس کے حقدار ہونگے‘‘۔
٭…٭…٭
جنرل سکندر مرزا کا پہلا مارشل لاء اور۔۔۔
Nov 18, 2024