دوسرا ٹی ٹونٹی آسٹریلیا نے پاکستانی فیلڈروں کی مدد سے جیت لیا
ویسے اس شکست میں پاکستانی بلے بازوں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔جس طرح اچھی بھلی چلتی ہوئی گاڑی اچانک سڑک پر ہچکولے کھاتے کھاتے رکنے لگے یا کوئی ٹرین اچھی خاصی چلتے ہوئے کسی ویرانے میں چھک چھک بند کرکے کھڑی ہو جائے تو مسافروں کو غصہ آنے لگتا ہے، وہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور جو جی میں آئے کہنے لگتے ہیں۔ اسی طرح آسٹریلیا سے ون ڈے میچ سیریز جیتنے کے بعد اب ٹی ٹونٹی میچوں میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کو جس طرح بریک لگ گئی ہے، ہچکولے کھاتی گاڑی کی طرح وہ یکدم ٹھس ہو کر رہ گئی ہے۔ اس پر کرکٹ شائقین کا غصہ برحق ہے، جو گزر گیا اسے بھول جانے والی بات درست ہے مگر گزشتہ روز جس طرح پرتھ میں آسٹریلین کرکٹ ٹیم کے کینگروز نے پاکستانی ٹیم کے شاہینوں کو دبوچ کر بے بس کر دیا، ان کے پر ہی نہیں، چونچ اور پنجے بھی کتر ڈالے۔ سچ کہیں تو واقعی پاکستانی فیلڈرز نے کیچ گرا کر یہ دوسرا میچ بھی ہاتھوں سے گنوادیا۔ یہ سمجھ نہیں آتا آخر یہ اچانک بریک کیوں لگ جاتی ہے۔ ٹیم اچھی بھلی پرفارمنس دیتے دیتے کڑک مرغی کی طرح کیوں بیٹھ جاتی ہے۔ اس کی کارکردگی کو کیا ہو جاتا ہے۔ ون ڈے تو ایک کے مقابلے میں دو میچوں سے جیت لیا مگر اب یہ ٹی ٹونٹی میں فی الحال صفر کے مقابلے میں دو میچوں سے ہار رہی ہے۔ پرتھ میں فیلڈروں نے جس طرح پانچ، جی ہاں پورے پانچ، میچ ڈراپ کیے، اس کے بعد جیت کی امید رکھنا بھی شیخ چلی کا خواب ہی تھا۔ یوں لگ رہا تھا گویا فیلڈرز کے ہاتھوں میں سوراخ ہے جس سے گیند نکل کر گر جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی محلے کے بچے کیچ ڈراپ کر رہے ہیں۔ اب کسی کو کیا کہنا، کسی بلے باز میں بھی ون ڈے والی کارکردگی کی جھلک نظر نہیں آئی۔ لگتا تھا بے دلی سے کھیل رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ بھی سامنے ہے، یہ سیریز آسٹریلیا نے جیت ہی لی ہے۔ آگے اللہ خیر کرے۔
٭…٭…٭
شیخ رشید، آصف زرداری قتل کیس سے بری۔ اب وردی والے بھی منہ نہیں لگاتے۔
گزشتہ دنوں جب اس کیس کا فیصلہ ہونا تھا، شیخ رشید کو معلوم ہوتا ہے پہلے سے گن سن مل گئی تھی۔ اسی لیے وہ رابن نیل کا اشتہار بنے ہوئے کچھ اس طرح عدالت میں آئے۔ گویا کوئی پرانی فلم کے اداکار ہوں۔نیلا سوٹ نیلی واسکٹ، کالا چشمہ کے جوتے۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ نیلونیل ہو گئے ہیں۔ اوپر سے ان کے گلے میں سرخ مفلر’مرا لال ڈوپٹہ ململ کا‘ بن کر لہرا رہا تھا۔ اگر اس طرح وہ کسی شادی میں جائیں تو حاصل بارات بن سکتے ہیں۔ کورٹ میں گن گن کر قدم رکھ رہے تھے کہ کہیں کسی پی ٹی آئی والے کے پیر پر قدم پڑ گیا تو قیامت آجائے گی اور شیخ جی کی ساری شیخی اور شوخی دھر ی رہ جائے گی مگر لگتا ہے کپتان کی طرف سے بے رخی اپنانے کے بعد ان کے کارکنوں نے بھی شیخ جی سے نظریں پھیر لی ہیں اور شیخ جی
کیوں دور دور رہندے او حضور میرے کولوں
مینوں دس دیو ہویا کیہہ قصور میرے کولوں
بھی کہتے ہوئے گھبراتے ہیں۔اب تو وہ خود بھی اقرار کر رہے ہیں کہ ان کا چلہ کاٹنا بھی ضائع ہو گیا۔ کچھ فائدہ نہیں ہوا، الٹا نقصان ہو گیا۔ یعنی الٹا گلے پڑ گیا۔ یار بھی گنوایا اور ہاتھ سے پیسے بھی گئے۔ اب تو وہ بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتے وہ جو کبھی ہنس کے دیکھ لیتے تھے۔ یوں تماشا لگا نے والا خود تماشا بن چکا۔ جو شخص ایوان میں بیٹھ کر اس وقت کی خاتون وزیراعظم کے لباس پر واہیات تبصرے کرتا تھا، آج خود نیلے کپڑے اور لال مفلر اوڑھے بڈھی گھوڑی لال لگام، بنے نظر آرہے تھے۔ نشانہ بنانے والے جب خود نشانہ بنتے ہیں تو لوگ ویسے ہی زہریلے تبصرے کرتے ہیں۔ جیسے کبھی انھوں نے کیے تھے۔
٭…٭…٭
زرعی اراضی پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر بند کی جائے، لاہور ہائیکورٹ
آج ہم جس ماحولیاتی آلودگی اور تباہی کا شکار ہیں اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک بیدردی سے ہرے بھرے درختوں اور سرسبز زمینوں کی بربادی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ہم نے ٹاؤن ڈویلپرز کوخوش کرنے کے لیے ان سے فائدہ اٹھانے کی خاطر اپنی سونے جیسی قیمتی زرعی زمینوں کو برباد کر دیا۔ وہاں سے سبزہ ختم کردیا، درخت کاٹ دیے،اپنے پھلدار درختوں کے باغات بھی نہ چھوڑے۔ دنیا بھر میں رہائشی کالونیاں غیرآباد،اور کاخانے بنجر زمینوں پر قائم کیے جاتے ہیں تاکہ زرعی اراضی ختم نہ ہو اور ماحولیاتی تناسب نہ بگڑے۔ خوراک کی قلت نہ ہو، کھیت کھلیان آباد رہے، ہم نے یہ پلاننگ نہیں کی۔ آج سزا مل رہی ہے۔ اجناس کی قلت خوراک کی قلت آب و ہوا میں آلودگی نے موسموں کی شدت میں اضافے نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ دنیا ماحول کی حفاظت کر رہی ہے، جنگلات اور سبزے کے ساتھ زرعی اراضی کو تحفظ دے رہی ہے۔ ہم ان سب کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اب حکومت کو چاہیے کہ وہ عدالت کی اس بات پر خصوصی توجہ دے۔ زرعی اراضی کے بچاؤ کے لیے وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی کی تعمیر پر مکمل پابندی عائد کرکے اور اس پر سختی سے عمل بھی کرائے۔ ورنہ یہی موسمی ماحولیاتی بے رحمی جاری رہی تو واقعی چند برسوں بعد ہمارے پاس صرف بنجر اراضی رہ جائے گی اور خشک دریاؤں کے نشان اور جنگلات کی جگہ ٹنڈ منڈ پہاڑ ہمارا منہ چڑھاتے نظر آئیں گے اور شاعر سے معذرت کے ساتھ
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ’پاکستاں‘ والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
بارش کم، گرمی زیادہ، سردی چھوٹی اور سموگ بڑھ رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے مطابق سب سے زیادہ متاثر ممالک میں بدترین حالات کا شکار ممالک میں سرفہرست ہے اور خطرہ ہے کہ یہ ہرا بھرا سرسبز ملک کہیں سوڈان اور ایتھوپیا کی طرح خشک سالی کا شکار بنجر ملک نہ بن جائے۔ جب لوگ ہی نہ رہیں گے، علاقے سے ہجرت کر جائیں گے، جیسے صدیوں پہلے ہوا تو مکانوں کو کیا چاٹا جائے گا یا پھر ہم ہڑپا اور موہنجو داڑو کی طرح ان کی یاد منائیں گے۔
٭…٭…٭
معاشی صورتحال بہتر ہونے کے باوجود مہنگائی بے قابو، عوام پریشان
تمام معاشی اشاریے بہتر ہونے کے باوجود حکومت سے مہنگائی کنٹرول نہ ہونا حیرانی کی بات ہے۔ باہر سے فنڈ آرہے ہیں، امداد مل رہی ہے، ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے، سٹاک مارکیٹ بلندیوں پر ہے، اس کے باوجود روزمرہ استعمال کی اشیا عام آدمی کی پہنچ سے دور بہت دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اب بے چارے غریب آدمی جب آلو 150 یا 200 روپے کلو دیکھے گا، پیاز اور ٹماٹر بھی اسی ریٹ پر ملتے ہیں، بینگن، گوبھی جیسی سبزی دو سو روپے کلو تو وہ بھارت سے یہی اشیاء25 تا 50 روپے کلو منگوا کر خریدنے کی بات نہیں کرے گا تو کیا کرے گا۔ چند قدم کے فاصلے پر آخر ایسی کون سی گنگا بہتی ہے جو ہمارے ہاں آکر الٹی ہو جاتی ہے بھارت کی آبادی ا ہم سے کئی گنا زیادہ ہے، غربت وہاں ہم سے زیادہ ہے مگر اشیائے خور و نوش، سبزیاں، آٹا، چاول، گھی، چینی نجانے کیوں ہم سے بہت سستی ہیں۔ یہی پنجاب جو ہمارے پاس ہے، وہاں بھی اس کا صرف تیسرا حصہ ہے جو پورے بھارت کا پیٹ بھرتا ہے اور ہمارا پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا مل کر بھی 24 کروڑ پاکستانیوں کا پیٹ نہیں بھر پاتے۔ یہاں چیزیں سستی نہیں ملتیں، سوائے موت کے
بتا اے دنیا والے یہ کیسی تیری بستی ہے
جینا ہے دشوار یہاں اورموت یہاں پہ سستی ہے
جبھی تو خودکشیاں یا غربت کی وجہ سے ہو رہی ہیں یا محبت میں ناکامی پر یا پھر قتل کو خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے ورنہ کون ماں باپ بچوں سمیت زہر کھا کر دریا میں کود کر اپنی جان لیتا ہے۔ اگر ملک معاشی ترقی کر رہا ہے تو اس کے ثمرات عوام تک بھی پہنچنے چاہئیں۔ ترقی خوشحالی اشرافیہ کی نہیں غریبوں کی ضرورت ہے۔ جن کے پیٹ پہلے ہی بھرے ہوں، ان کو مزید فائدے دینا انصاف نہیں ظلم ہے۔ ’ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو‘۔ اس سوال کا جواب اب حکمرانوں نے ہی دینا ہے۔
پیر‘ 15 جمادی الاول 1446ھ ‘ 18 نومبر2024ء
Nov 18, 2024