آئی ایم ایف مشن کا دورۂ پاکستان کامیاب ریویو کی راہ ہموار

Nov 18, 2024

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایک وفد نے نیتھن پورٹر کی قیادت میں پاکستان کا چار روز کو محیط دورہ کیا جو جمعہ کے روز اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دوران آئی ایم ایف مشن اور پاکستانی حکام کے مابین سات ارب ڈالر کے اس قرضہ پروگرام کے بارے میں مذاکرات ہوئے جو آئی ایم ایف پہلے ہی منظور کرچکا ہے اور اس کی ایک قسط پاکستان کو مل بھی چکی ہے۔ یہ مذاکرات پہلے سے طے شدہ نہیں تھے۔ اطلاعات کے مطابق، آئی ایم ایف پاکستان کی طرف سے اڑھائی ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضوں کے حصول کے بارے میں تشویش کا شکار ہے۔ ان قرضوں میں سعودی عرب کی طرف سے 1.2 ارب ڈالر کے ادھار تیل کا حصول بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں، جولائی تا اکتوبر کی مدت کے دوران ٹیکس وصولی کے ہدف میں 190 ارب روپے کی کمی بھی آئی ایم ایف کے لیے تشویش کا باعث بنے ہوئی ہے۔
آئی ایم ایف مشن کے دورۂ پاکستان کے حوالے سے حکومت کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فریقین کے درمیان معاشی امور پر بات چیت مثبت رہی ہے۔ اعلامیے کے مطابق، آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان کو موجودہ قرض پروگرام کے اہداف پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ مشن چیف نیتھن پورٹر نے کہا کہ قرض پروگرام کے اہداف پر سختی سے عمل درآمد عوام کا معیار زندگی بہتر کر سکتا ہے۔ حکومت ٹیکس نہ دینے والے شعبوں سے ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔ اعلامیے کے مطابق، مذاکرات میں وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں سے بھی بات چیت ہوئی اور نجی شعبے کے نمائندوں سے بھی تبادلۂ خیال ہوا جس کے دوران سماجی تحفظ اور ترقی میں صوبوں کے کردارکو بڑھانے پر بھی بات چیت ہوئی۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات اورچیلنجز پر خصوصی بات چیت کی گئی۔ مشن چیف نے کہا کہ حالیہ بات چیت آئی ایم ایف کے ششماہی جائزے کے لیے کی گئی۔
مذاکرات میں معاشی اصلاحات، پالیسیوں اور ترقی کے لیے حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اعلامیے کے مطابق، آئی ایم ایف نے پاکستان سے مذاکرات کو مجموعی طور پر مثبت قرار دیتے ہوئے کئی شعبہ جات میں نجی شعبہ کا حصہ بڑھانے اور بعض شعبوں میں حکومت کا حصہ محدود کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان سے 12 تا 15 نومبر مشن چیف نیتھن پورٹر کی سربراہی میں مذاکرات ہوئے جس میں پاکستانی حکام کا رویہ حوصلہ افزا تھا۔ پاکستان حکام سے مذاکرات کے بارے میں آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کو آگاہ کیا جائے گا اور وفد آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی میں پھر پاکستان آئے گا۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات بامقصد رہے۔ حقائق کی بنیاد پر کھل کر بات چیت ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف وفد نے ہماری باتیں غور سے سنیں اور مطمئن نظر آیا۔ شعبہ توانائی میں اصلاحات پر زیادہ بات چیت ہوئی۔ دورے کا مقصد اعتماد سازی میں اضافہ تھا۔ 12 ہزار 970 ارب ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنے کا عزم ہے۔
 آئی ایم ایف مشن کے حالیہ مذاکرات کے بعد قرضہ پروگرام کے پہلے ریویو کے کامیاب ہونے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اس مشن کے دورے کے نتیجے میں یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان میں مالی سال کے دوران منی بجٹ کا کوئی امکان نہیں اور اس کی تصدیق خود وفاقی وزیر خزانہ اور وزیر مملکت برائے خزانہ نے اپنے حالیہ بیانات میں بھی کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے مشورہ دیا ہے کہ بجٹ سازی کے عمل کو مستحکم کیا جائے، وفاقی وزارت خزانہ کی تنظیم نو کی جائے اور خاص طور پر ضمنی گرانٹس کے استعمال کے حوالے سے وفاقی حکومت کے صوابدیدی اختیارات کو کم کرنے کے لیے قانونی تبدیلی لائی جائیں اور آڈیٹر جنرل آفس سے ضمنی گرانٹ کے استعمال کے بارے میں خصوصی آڈٹ کریں۔ بجٹ کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے ایک ماسٹر پلان تیار کیا جائے اور عمل درآمد کے لیے اعلیٰ سطح پر سٹیئرنگ کمیٹی قائم کی جائے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم مارچ میں پاکستان کا دورہ کرے گی۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ آئی ایم ایف مشن کا دورۂ پاکستان مثبت رہا ہے اور اس دوران مشن اور پاکستانی حکام کے مابین جو بات چیت ہوئی ہے اس سے معاملات آگے کی طرف بڑھنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم آئی ایم ایف سے قرض لے رہے ہیں جو ہم نے سود سمیت واپس کرنا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی معیشت ایسی نہیں ہے جو قرض لے کر مستحکم ہوئی ہو۔ 1958ء سے اب تک ہم آئی ایم ایف سے قرض لے رہے ہیں اور گزرتے وقت کے قرض کی دلدل میں مسلسل دھنستے ہی چلے جارہے ہیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے یہ کہا تو ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام آخری ہوگا لیکن ایسے سیاسی بیانات ان سے پہلے بھی کئی لوگ دے چکے ہیں اور حالات ہمارے سامنے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے عوام کی بجائے اشرافیہ اور صنعتی و کاروباری طبقات پر توجہ دے اور ایک طرف تو اس کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی مراعات و سہولیات ختم کی جائیں اور دوسری جانب ان سب طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے جو سالانہ بنیادروں پر اربوں کھربوں روپے کما رہے ہیں لیکن ان کی طرف سے دیا جانے والا ٹیکس مونگ پھلی کے دانوں کے برابر ہے۔

مزیدخبریں