غیر ملکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے نیٹو چیف راسموسین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی اور ملٹری حکام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ امریکا اتحادیوں کے ساتھ تعلقات اور قبائلی سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں کے خطرات کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں ناکام ہو چکا ہے اور اس تاثر کا ختم کیا جانا
بے حد ضروری ہے۔انکا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت اور فوج کو حقانی نیٹ ورک سے تعلقات استوار کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے اور اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں۔راسموسین نے اوباما نتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد میں کٹوتی کی اطلاعات کی بھی تردید کی ۔انہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان میں برسر پیکار نیٹو کا اب بھی اہم اتحادی ہے ۔حقانی نیٹ ورک اور پاکستان کے رابطوں کے حوالے سے نیٹو چیف نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
بے حد ضروری ہے۔انکا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت اور فوج کو حقانی نیٹ ورک سے تعلقات استوار کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے اور اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں۔راسموسین نے اوباما نتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد میں کٹوتی کی اطلاعات کی بھی تردید کی ۔انہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان میں برسر پیکار نیٹو کا اب بھی اہم اتحادی ہے ۔حقانی نیٹ ورک اور پاکستان کے رابطوں کے حوالے سے نیٹو چیف نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔