جمعرات ‘ یکم ذی الحج ‘ 1433ھ 18 اکتوبر2012 ئ

وزیراعظم چنیوٹ میں واپڈا کے ڈیفالٹر نکلے‘ نہ بجلی کٹی ‘ نہ میٹر اتارا گیا۔
غریب آدمی دو ماہ کا بل جمع نہ کرا سکے تو تیسرے ماہ نہ صرف اسکی بجلی کاٹ دی جاتی ہے بلکہ اس کا میٹر بھی اتار لیا جاتا ہے۔ لیکن جب ہاتھ میں لاٹھی ہو تو کسی کی کیا مجال کہ اس سے بھینس چھین سکے۔ نیب کا زور بھی صرف چھوٹے ڈیفالٹرو ں پر چلتا ہے لیکن جب کوئی بڑا مگرمچھ پکڑا جائے تو نیب پھر غائب ہی نظر آتا ہے۔ قوم کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس وقت جو اس پر حکمرانی کر رہے ہیںان میں سے بیشتر کے نام ای سی ایل میں موجود ہیں۔ داخلہ وزیر کو بھی ملک سے باہرجانا پڑے تو اجازت لینا پڑتی ہے۔ بہرحال راجہ اب صرف نام کے ہی راجہ نہیں رہے‘ خیر سے اب ریاست کے بھی راجہ ہیں‘ اگر وہ غریب ریاست پر ترس کھا کراپنے واجبات ادا کر دیں تو ممکن ہے رینٹل پاور کے زخم کچھ کم ہو سکیں ۔ پر کتھوں!!!
٭....٭....٭....٭
کرینہ اور سیف شادی کے بندھن میں بندھ گئے‘ دولہا کا اصل نام ”ساجد علی“ ہے۔ بھارتی میڈیا میں کھلبلی۔
پیتے پیتے کبھی کبھی یوں جام بدل جاتے ہیں
لوگوں کے نام بدل جاتے ہیں
آج ثابت ہو گیا کہ جام ہی نہیں‘ نام بھی بدل جاتے ہیں۔ کرینہ کپور شکر کریں کہ دولہے کا صرف نام ہی بدلا ہے‘ ان کا دولہا جینوئن حالت میںموجود ہے ‘ ورنہ کئی واقعات ایسے بھی ہو چکے ہیں جس میں لڑکی خوبصورت دکھا کررخصت کسی واجبی شکل والی کو کردیا جاتا ہے۔ فلمی دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ فنکار کا اصل نام کچھ اور فلمی نام کچھ ہوتا ہے۔ بہرحال سیف نے اپنی نئی زندگی کا آغاز اپنے نئے نام سے کیا ہے ‘ اس میں بھارتی میڈیا کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
٭....٭....٭....٭
ڈاکٹر عاصم نے فرمایا ہے‘ بھارت مناسب قیمت لے تو پٹرول اور ڈیزل خرید سکتے ہیں‘ جبکہ حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو سے تین روپے فی لٹر نیا سرچارج لگانے کی تیاریاں‘ ایک اور خبر کےمطابق عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی۔
مناسب قیمت تو ہمیں عالمی منڈی سے بھی ملتی ہے‘ لیکن عوام تک پہنچتے پہنچتے اس پر اتنے ٹیکس لگادیئے جاتے ہیں کہ اسکی قیمت مناسب نہیں رہتی۔ اگر بھارت سے پٹرول خرید بھی لیا جائے تو اس سے عوام کو کونسا ریلیف مل جائیگا۔ وہ تو پھر بھی اسی ناجائز قیمت پر خریدنے پر مجبور ہونگے۔عالمی منڈی میں قیمتیں روز بروز گر رہی ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں اسکے برعکس ہے‘ اگر قیمت کم بھی کردی جائے تو اس پر کوئی نیا سرچارج لگا کر اسے عوام کی دسترس سے باہر کردیا جاتا ہے۔ اب پھر دو سے تین روپے نیا سرچارج لگانے کی تیاری ہو رہی ہے۔یہ بہتر نہیں کہ قوم کا ایک ہی بار سر قلم کردیا جائے‘ نہ سر ہو گا‘ نہ چارج کرنے کی ضرورت پیش آئیگی۔ اوگرا نے ہفتہ وار قیمتوں کا جائزہ لے کر نہ صرف ویک اینڈ کا مزہ کرکرا کر دیا بلکہ اسکے اس عمل نے عوام کو نجومی بنا کر رکھ دیا ہے‘ جو ہر ہفتے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آئندہ ہفتہ کیسا رہے گا۔ اوگرا خود کو قوم کی نظروں میںنہ گرائے‘ اس سے پہلے کہ پٹرول کی قیمتیں سن کر ہر بندہ کےساتھ ”او....گِرا‘ اے گرا“ والا معاملہ پیش آئے‘ اوگرا کو اپنی ناجائز منافع خوری سے باز آجانا چاہیے۔لیکن بھارت سے تیل خریدنے والے وزیر کو پاکستان کابینہ میں رہنا چاہیے‘ مسئلہ کشمیر اور اسی طرح اور بھارت کا تیل؟ وزیر صاحب نمونہ کیلئے کچھ تیل منگوائیں‘ اسے کڑاہی میں ڈالیں ‘ اسے آگ لگائیں اور اس میں کود جائیں‘ خیر ہو پاکستان کی!
٭....٭....٭....٭
اداکارہ میرا کے پرس سے دس ہزار ڈالر چوری ہو گئے۔
"Who do this dare?" (یہ جرا¿ت کس نے کی ؟) میرا کے منہ نکلنے والے فوری الفاظ یقیناً یہی ہونگے ۔ ایسے موقع پر بدحواس ہو کر منہ سے اس طرح کی انگریزی نکل ہی جاتی ہے۔ حالانکہ انکی انگریزی تو انگریزوںسے بھی اچھی ہے۔ پچھلے دنوں ایک اور فنکار کے گھر میں بھی ڈاکہ پڑا تھا جہاں سے ڈاکو کئی لاکھ کا سونا چرا کر لے گئے۔ لگتا ہے آجکل فنکار ڈاکوﺅں کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ کئی فنکار اور صدا کار ایسے بھی ہیں جو گھر گھر‘ گلی گلی جا کر گابجا کر پائی پائی اکٹھی کرتے ہیں‘ ان کا شمار چھوٹی سطح کے فنکار وں میں ہوتا ہے جبکہ اعلیٰ سطح کے فنکار گلی گلی‘ گھر گھر کے بجائے ملک ملک جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرکے روپیہ پیسے نہیں‘ ڈالر کماکر لاتے ہیں ‘ اسی لئے تو ڈاکوﺅں کی ان پر نظر ہے اور وہ موقع پا کر میرا جیسی سادہ لوح فنکار کے پرس سے انکی محنت کی کمائی چوری کر لیتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
امریکی صدر اوباما کے حمایتی نوجوانوں نے سڑکوں پر رقص شروع کر دیا اور دوسری جانب امریکی صدارتی ووٹنگ کیلئے فرانس نے چاکلیٹ بھرا ایک ایسا ڈبہ تیار کیا ہے کہ جو بھی کسی امیدوار کے نام کا باکس خریدے گا‘ آن لائن ووٹ اسکے نام ہو جائیگا۔
جب سے امریکہ نے مشرق کا رخ کیا ہے‘ اسکی عادات خصائل پر بھی یہاں کا رنگ چڑھنے لگا ہے۔ اوباما کے بھی اپنے جیالے ہیں‘ جنہوں نے سڑکوں پر بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ ظاہر ہے امریکہ کا یہ بھنگڑا بھی مخلوط ہو گا اور ”ست رنگیا“ ہو گا۔ اور فرانس نے تو کمال کر دیا ہے کہ اسکے چاکلیٹ بکیں گے اور امیدواروں کو ووٹ پڑینگے۔ جمہوریت اب مغرب میں بھی راجا کی آئیگی بارات ہو چکی ہے اور ویسے بھی اوباما کے انتخابی لوگو ”فارورڈ“ کو تقویت ملے گی۔ بالخصوص امریکی رنگ رنگیلا بھنگڑا تو امریکی سڑکوں کو رادھا شام کی رقص گاہ بنا دیگا۔ ظاہر ہے اوباما نومن تیل کا بھی بندوبست کرینگے تاکہ انکی فتح کے چراغ جلیں اور کیا امریکی الیکشن کمیشن چاکلیٹی ووٹنگ کو تسلیم کریگا؟ ایک بڑے جمہوری مغربی ملک میں بھی اگر اب ووٹ لینے کیلئے ایسے ہتھکنڈے استعمال ہونے لگے ہیں تو عین ممکن ہے وہاں یہاں کا اور یہاں وہاں کا کلچر ایک ہو جائے۔ ناچنا گانا بھی اچھی بات ہے اور اگر انتخابی مہم اسی تک محدود رہے اور باقی ہیرا پھیریاں نہ ہوں تو جمہوریت کو بھی اور اوباما کو بھی چاکلیٹ ہیرو کہا جا سکتا ہے۔ جب نیویارک کی سڑکوں پر رقص ہو تو امریکی گوریوں کو پائلیں بھی پہنا دی جائیں تاکہ اوباما کے جیالے پیچھے پیچھے یہ گاتے ہوئے رقص کریں.... پائل کی جھنکاررستے رستے

ای پیپر دی نیشن