ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی سپاہی کا بیٹا تھا اور یہ سالار بنا۔ سالار لیڈر ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں عام طور پر یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا میانوالی میں سرداری نظام جاگیردارانہ نظام سے زیادہ برا ہے۔ یہ برائی بلوچستان میں کچھ اور بری ہو چکی ہے۔ وہاں لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ بزدل نالائق اور کرپٹ حکمرانوں نے سرداروں سے وہی کام لیا جو وہ اپنے محکوموں سے لیتے ہیں۔ میانوالی میں یہ بات سیاسی طور پر اتنی کارآمد نہیں ہے۔ اب تو سرداری نظام بھی تقریباً دم توڑ چکا ہے۔ ایسے ماحول میں کسی غریب آدمی کا اوپر آنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ شیر افگن خان ایک بہت بڑے قبیلے وتہ خیل کے فرد تھے۔ جس طرح میں بھی موسیٰ خیل کے پٹھانوں میں پہلے نمبر کے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرا دادا بابا جہاں خاں غریب نہیں تھا مگر امیر بھی نہیں تھا۔ وہ اپنے علاقے کا سردار تھا۔ وہ ذیلدار بھی تھا اور یہ نمبردار سے بہت آگے کا منصب تھا۔ میانوالی کے پٹھان صاحب کردار ہوتے ہیں۔ دوسری ذاتوں کے لوگ بھی پٹھانوں جیسے ہیں۔ جہاں خان ذیلدار جیسا صاحب کردار کم کم ہو گا۔
مجھے اپنے ذوق و شوق والے ابا جی کی یہ دعا یاد آتی ہے جو وہ ہر نماز کے بعد مانگا کرتے تھے۔ اے خدا مجھے غریبی سے بچا۔ اس کے ساتھ ہی کہتے اے خدا مجھے امیری سے بچا۔ خدا کی قسم امیری غریبی سے بہت بری ہے۔ دونوں کے منفی معاملات ہیں۔ امیری کی منفیت زیادہ ہے۔
حیراں ہوں کہ دار سے کیسے بچا ندیم
وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا
امیر ظالم اور بزدل ہوتا ہے۔ بالعموم بے ضمیر وہی ہوتا ہے۔ غریب خوش نصیب نہیں ہوتا مگر بدنصیب بھی نہیں ہوتا۔ اتنی بات بھی ہمارے معاشرے میں رہنے دی گئی ہوتی تو ہماری دنیا جنت ہوتی۔
میں یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ جامعہ نعیمیہ میں شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی برسی پر مہمان خصوصی شہباز شریف اور راغب نعیمی کی موجودگی میں تقریر کے دوران کہا۔ سیاستدان اور حکمران جھوٹے نعرے لگاتے رہتے ہیں کہ ہم غریبی ختم کر دیں گے۔ ان کی کوششوں سے غریب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اب تو وہ سسک رہے ہیں۔ نہ مرتے ہیں نہ جیتے ہیں۔ کوئی بتائے کہ یہ زندگی کی کون سی قسم ہے۔ مہنگائی ایک عذاب ہے اور یہ صرف غریبوں کیلئے ہے۔ کوئی عذاب امیروں کیلئے بھی ہو۔ میں نے کہا کہ تم غریبی ختم نہ کرو تھوڑی سی امیری ختم کر دو۔ غریبی خودبخود ختم ہو جائے گی۔ شہباز شریف نے اپنی تقریر میں میری اس بات کو خصوصی اہمیت دی مگر غریبی بڑھتی جا رہی ہے کہ امیری بڑھتی جا رہی ہے۔
بات کچھ لمبی ہو گئی ہے کہ ڈاکٹر شیر افگن غریب تھا اور غریبوں کا ساتھی تھا۔ اس نے کبھی امیروں کو پسند نہ کیا۔ اگرچہ اس نے اپنی کلاس تبدیل کر لی۔ وہ بظاہر امیر کبیر ہو گیا مگر اندر سے غریب تھا۔ غریبوں کا دوست تھا۔ یہ بات مجھے میرے دوست اور میانوالی کے ممتاز صحافی اور میانوالی کی تاریخ سے بہت باخبر محمود الحسن خان نے بتائی۔ ڈاکٹر شیر افگن خوشی غمی کا کوئی موقع نہ چھوڑتا تھا۔ غریبوں میں رہتا تھا۔ اس کے دوست غریب تھے اور میانوالی میں بہت لوگ غریب ہیں۔ جو غریب نہیں وہ امیر نہیں ہیں۔ امیروں والی کوئی بات شیر افگن میں نہ تھی۔ وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوا۔ سرکاری نوکری نہ کی۔ اپنا کلینک کھول لیا۔ وہاں غریب مریضوں کا ہجوم رہتا تھا۔ شیر افگن بلند آہنگ تھا۔ میانوالی میں یہ عمومی عادت ہے۔ لوگ اونچا بولتے ہیں۔ ڈاہڈا بولتے ہیں۔ وہ غریبوں سے ان کی زبان میں ان کے لہجے میں بولتا تھا۔ وزیراعظم سے مل کر کہتا کہ یہ میرے ضلع کا میراثی ہے۔ اس کا کام ضرور کریں۔ خاص لوگوں کیلئے تو کہنے والے بہت ہیں۔ وہ عام لوگوں کیلئے کہتا تھا۔
اس نے اپنی سیاست کی بنیاد بغاوت پر رکھی۔ میں ان دنوں گورنمنٹ کالج میانوالی میں شکایتی طور پر تبدیل ہو کے آیا تھا۔ ہم سب ڈاکٹر شیر افگن کے ساتھ تھے۔ میرے پاس وہ وڈیو محفوظ ہے جس میں ڈاکٹر شیر افگن نے کہا ہے کہ مجھے اجمل نیازی اور اس کے ساتھیوں نے سیاستدان بنایا۔ مجھے افسوس ہے کہ اس سے دوریاں ہو گئیں۔ اس نے نظریات بدل لئے۔ اپنی عادات نہ بدلیں۔
ڈاکٹر شیر افگن نے بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو کو جائن کیا۔ پیپلز پارٹی اب تک غریبوں کی پارٹی ہے مگر اس پارٹی پر بھی قبضہ امیروں کا ہے۔ اب تو کرپٹ امیروں کا ہے۔ ہماری ساری سیاست میں کرپٹ امیروں کا راج ہے۔ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہوں۔ امیروں اور خاص قسم کے غریب دشمن لوگوں کے سوا اسمبلی میں پہنچنا بہت مشکل ہے۔ مگر ڈاکٹر شیر افگن چار بار اسمبلی میں پہنچا۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ امیری کے بغیر اسمبلی میں جانا ممکن ہی نہیں۔ غریب بھی اسی احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دو دفعہ وہ وزیر بنا۔ بی بی کا وزیر تو بہرحال ایک اعزاز ہے مگر وہ جنرل مشرف کا بھی وزیر بن گیا۔ جو میانوالی والوں کیلئے ناپسندیدہ تھا اور وہ ہار گیا۔ اس کا غم اسے تھا۔ جنرل مشرف کا ساتھ دینے کا بھی افسوس تھا۔
وہ آئین کا حافظ تھا۔ پارلیمانی امور کا ماہر تھا۔ اسمبلی میں وہ بولتا تھا کوئی اور اس کی طرح نہیں بول سکتا تھا۔ وہ دبنگ آدمی تھا۔ جنرل مشرف کے ساتھ مل کے بھی دبنگ رہا۔ یہ اس کی فطرت تھی۔ اس نے بے وردی مشرف سے وفا نبھائی۔ اسے چھوڑ دیا مگر کوئی بات نہ کی۔ اب اس کی صحت اجازت نہ دیتی تھی۔ وہ سیاست ہی چھوڑ بیٹھا تھا۔ افسوس تو چودھریوں پر ہے کہ وہ اسے دس بار باوردی منتخب کرانا چاہتے تھے۔
اس کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ میانوالی کے لوگ اسے اپنا اپنا سمجھتے تھے۔ محمود الحسن جو سادہ اور دلیر آدمی ہے۔ وہ اس کی ہمیشہ تعریف کرتا ہے۔ آخری وقتوں میں اس کے ساتھ جدائی رہی مگر اس کا تعلق میرے اندر ختم نہ ہوا۔ اس کے جنازے میں شیخ رشید میانوالی گیا۔ مجھے اچھا لگا۔ وہ شیخ صاحب کے کولیگ تھے۔ یہ روابط کی روایت کو نبھانے والے کا نام ہے۔ انعام اللہ خان بھی گیا۔ وہ پہلے ن لیگ میں تھا۔ اب تحریک انصاف میں ہے۔ یہ میانوالی کی روایت ہے۔ یہی قبائلی معاشرے کی نشانیاں ہیں اور بہرحال میانوالی میں قبائلی معاشرہ کچھ کچھ ہے۔ ایک افسوس مجھے ہے کہ چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی میں سے ایک کو ڈاکٹر شیر افگن کے جنازے میں جانا چاہئے تھا۔ ان کی فیملی کی بڑی روایات ہیں اور وہ خاندانی لوگ سیاست میں سمجھے جاتے ہیں مگر اب نجانے کیا ہو گیا ہے؟
میں بھی جنازے میں نہ پہنچ سکا مگر فاتحہ خوانی کیلئے گیا۔ وہاں برادرم محمود الحسن بھی ڈاکٹر صاحب کے جانشین فرزند امجد خان کے پاس موجود تھا۔ ہم ڈاکٹر صاحب کو یاد کرتے رہے۔ امجد خان سیاست میں ہے۔ ایک خبر گرم ہے کہ وہ عمران خان کو جائن کرے گا اور الیکشن لڑے گا۔ اس نے بہت مزے کی بات کی میں میانوالی کے لوگوں کے ساتھ ہوں۔ ڈاکٹر شیر افگن لوگوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اپنے والد کی باتیں امجد خان کو یاد رکھنا چاہئیں۔ اس نے ایک جملہ کہا جو مجھے بہت پسند آیا۔ کچھ دوست وہاں تھے تو امجد خان نے کہا کہ یہ میرے رشتہ داروں سے زیادہ میرے رشتہ دار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو دیمک لگتی ہے اور نہ زنگ لگتا ہے۔ فاتحہ خوانی ایک عجب روایت ہے۔ بندہ مرنے کے بعد فاتح ہو جاتا ہے۔ وہ ناکامیوں سے آگے نکل جاتا ہے کامیابیاں بھی پیچھے رہ جاتی ہیں۔ لوگ محبت سے ڈاکٹر شیر افگن کو یاد کر رہے ہیں۔ یہ اس کے فاتح ہونے کی گواہی ہے۔