آس پاس اورگرد و پیش میں دکھائی دینے والے مناظر ملاحظہ کریں کہ ایک طرف بھارت نے ہماری سرحدوں پر آگ لگا رکھی ہے تو دوسری جانب ہم خود گھر پھونک کر تماشہ دیکھنے میں مشغول ہیں۔ بھارت کی بلااشتعال فائرنگ سے درجن بھر سے زیادہ بے گناہ پاکستانی شہید ہو گئے لیکن آفرین ہے حکومت وقت پر کہ اس نے تاحال نیم دروں نیم بروں والا رویہ اپنا رکھا ہے‘ کیا اس انتہائی نازک موقع پر
دو ٹوک مﺅقف اختیار کرنا روا نہیں تھا۔
اسے عوم کے قتل عام کی قیمت پر ہر گز قابل قبول نہیں بنایا جا سکتا۔ حکمرانوں کے کاروباری مفادات بھی بجا‘ تاہم فی الوقت وہ عوام کے مفادات کی نگہبانی پر مامور ہیں اور اسی مقصد کے لئے انہیں ”ہیوی مینڈیٹ“ سے نوازا گیا تھا۔ اگرچہ مذکورہ ہیوی مینڈیٹ اس وقت انتہائی متنازعہ خیز حیثیت اختیار کر چکا ہے اور اس ضمن میں مخالفین کے ساتھ ساتھ حکومتی ”دوستوں“ میں بھی شدید تحفظات پائے جاتے ہیں اور تو اور اب حالت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے سرکردہ افراد اور ”راز داران درون خانہ“ بھی یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ”معاملات اور واقعات“ واقعتاً مشکوک اور ملفوف ہیں اور اس حوالے سے حالات مزید تیزی کے ساتھ دگرگوں ہونے جا رہے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ احتجاج کنندگان کی طاقت اور ہم نوائی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ بات دھرنوں سے نکل کر اب جلسے جلوسوں تک آن پہنچی ہے۔ خلق خدا کا جم غفیر تو اغلباً اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ”سواداعظم“ نے فیصلہ کن اسلوب اختیار کر لیا ہے ہر چند ”دو بدو“ کی کیفیت کے ساتھ ساتھ ”بیک ڈور چینل“ بھی متحرک ہے اور اس حوالے سے جلد یا بدیر کوئی ”نتیجہ خیز“ اعلان نامہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔ دُور کی کوڑی لانے والے اور واقفان حال سبھی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ملکی سیاست کے واضع تر ہوتے ہوئے خدوخال اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ”حالات“ اُنوسط مدتی انتخابات کی طرف گامزن ہیں‘ جن پر دیدہ اور نادیدہ قوتیں کام کر رہی ہیں نمایاں سیاسی دھڑے اسی مقصد کے لئے ظاہری اور پوشیدہ ”تیاریوں“ میں مصروف عمل ہیں۔ نئی صف بندیاں کی جا رہی ہیں جو مختلف گروہوں کی شکل میں جلد منظر عام پر ہوں گی۔ ڑے یاسی کھلاڑی ایک دوسرے کا ”ٹریک ریکارڈ“ مُرتب کرنے میں مصروف ہیں جو ”بوقت ضرورت“ ایک دوسرے کے سامنے کھول دیا جائے گا۔ باقی ماندہ ”کارکردگی“ کی فائلیں کسی اور ”جگہ“ اکٹھی کی جا رہی ہیں تاکہ آنے والے ”مناسب“ موقع پر حوالہ جات کے کام آ سکیں ملکی سیاست کا آئندہ منظر نام جیسا بھی ہو لیکن یہ امر اپنی جگہ مسلمہ حقیقت بن چکا ہے کہ حالیہ سیاسی اُتھل پُتھل سے یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ عوام نسبتاً زیادہ باخبر ‘ ہوشیار اور چوکنا ہو گئے ہیں۔ ان کے سیاسی اور سماجی شعور میں بے پایاں اضافہ ہوا ہے۔ انہیں اپنے حقوق کے حوالے سے زیادہ آگاہی حاصل ہوئی ہے اور وہ یقیناً اس بات کے خواہش مند ہوں گے کہ آئندہ آنے والے سیاسی قیادت میں ان جیسے عام لوگوں اور سیاسی کارکنوں کی نمائندگی کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ اس قیادت کو عام آدمی کے خوابوں اور کاوشوں کا ادراک ہو سکے۔ اس وقت نمو پذیر سیاسی اورسماجی مکالمے اور طبقاتی مجادلے میں جس جوش اور شدت سے عام آدمی دخیل ہو رہا ہے اس سے یوں گمان گزرتا ہے وہ دن دور نہیں جب اس ملک میں عوام کی حکومت ہو گی۔ عوام کے ذریعے ہو گی اور عوام کےلئے ہو گی۔ عوام اور سیاسی اثر رمیز میں فاصلے اور اس قدر زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ یہ متوقع امر ناگزیر ہو چکا ہے اور بالآخر وقوع پذیر ہو کر رہے گا۔ ملتان میں عمران خان کے حالیہ جلسے میں یہ بات منویہ واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے کہ سیاسی اشرافیہ کو محض اپنے مفادات سے غرض ہے۔ عوامکے جان و مال سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ سات کارکن لمحہ لمحہ موت کے منہ میں جا رہے تھے۔ لیکن سیاسی اشرافیہ کو شوق نمود سے فرصت نہ ملی کہ وہ ان غریب اور بے بس کارکنوں کی طرف متوجہ ہو پاتی جو تڑپتے بلکتے موت کی جانب لڑھک گئے پیاس اور آس کے مارے یہ بے چارے سات کارکن ہجوم کے پیروں تلے نہیں بلکہ ایک جاگیردار سیاستدان کی بے حسی لاپروائی اور ”انا“ کے نیچے آ کر کچلے گئے۔ ان کارکنوں کے ساتھ ساتھ اس جاگیردار سیاست دان کی بے حسی اور انا کے بوجھ تلے عمران خان کی ساکھ اور نیک نامی بھی کچلی گئی اور کیا عمران خان کے لئے بذات خود یہ لازم نہ تھا کہ وہ اس سانحہ جانکاں کے فوری بعد منظر پر آتے اور رات کی رات ملتان میں رک کر کارکنوں کے سوگ میں شریک ہوتے لیکن شاید ان کا جہاز اڑان بھرنے کیلئے یکسر تیار تھا۔ جبکہ مرنے والے تو اڑان بھر چکے تھے‘ اور ساتھ ہی ساتھ شاید عمران اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے لگایا جانے والا ”تبدیلی“ کا نعرہ بھی کہیں دور اڑاتا ہوا محسوس ہوتا ہے آج دکھائی دینے والے مناظر میں سے واضع ترین یہی منظر ہے۔ ٹیل پیس۔ ملتان میں ہونے والے ضمنی الیکشن کا نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے لیکن جاوید ہاشمی پر ذاتی حملے اور رکیک الزام تراشی کسی طور پر بھی گوارا نہیں ہر چند موصوف نے غلط وقت پر غلط سیاسی فیصلہ کیا تاہم ان کا ذاتی کردار‘ شخصی طنطنہ اور اجلے ہاتھ اس امر کے گواہ ہیں کہ وہ ایک ایسے من موجی شخص ہیں جو نہ فیصلہ کرنے سے پہلے سوچتے ہیں اور نہ شاید بعد میں نتائج سے بے پرواہ اکل کھرے یہی سامنے کا منظر ہے۔