این اے 149 ملتان II کا ضمنی الیکشن کامیابی اور ناکامیوں کی وجوہات

 ملتان  ، رائو شمیم اصغر
این اے 149ملتان II کا پیمان انگزیز معرکہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے اور تحریک انصاف کی حمایت یافتہ امیدوار ملک محمد عامر ڈوگر واضح اکثریت سے کامیاب ہوگئے ہیں
 انہوں نے 52321 ووٹ حاصل کئے ہیں ان کے قریب ترین حریف امیدوار مخدوم جاوید ہاشمی 38393 ووٹ حاصل کر پائے ہیں انہیں مسلم لیگ ن کی حمایت حاصل تھی۔ باقی 16 امیدواروں میں سے صرف دو ہی اہم تصور کئے جاتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے ڈاکٹر جاوید صدیقی صرف 6226 ووٹ حاصل کر پائے جبکہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوار سابق ایم این اے شیخ محمد طاہر رشید 1446 ووٹ ہی لے سکے، این اے 149 کے ضمنی انتخابات کے حیرت انگز نتائج کے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اس کا صحیح اندازہ تو مستقبل میں ہی ہوگا فوری طور پر جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں جماعتوںکی شہرت اور مقبولیت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور پاکستان تحریک انصاف پہلے سے زیادہ مقبول اور مضبوط جماعت نظر آنے لگی ہے۔ یہ درست ہے کہ ضمنی انتخابات کسی طور پر کسی جماعت کی مقبولیت جانچنے کا پیمانہ قرار نہیں دیئے جاسکتے، سابقہ دارلحکومت میں پاکستان پیپلز پارٹ بیشتر ضمنی انتخابات جیت گئی تھی لیکن عام انتخابات میں اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اور یہ بھی درست ہے کہ حکمران جماعت ہی ضمنی انتخابات جیتا کرتی ہے ان حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو این اے 149 کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی کامیابی بہت اہم اور مخالفین کے لئے آنکھیں کھول دینے والی کامیابی ہے، تحریک انصاف کیوں جیتی، مسلم لیگ ن کیوں ہاری اور پیپلز پارٹی کو بدترین شکست کا کیوں سامنا کرنا پڑا اس کے بہت سے اسباب ہیں مخدوم جاوید ہاشمی اور ملک عامر ڈوگر دونوں اپنی جماعتیں چھوڑ کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے، مخدوم جاوید ہاشمی تحریک انصاف کے صدر رہے ہیں انہوں نے اپنی جماعت چھوڑی تو ایک بھی کارکن ان کے ساتھ تحریک انصاف کو چھوڑ کر نہ آیا۔ ملک عامر ڈوگر نے پیپلز پارٹی اور جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ چھوڑا اور آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا پیپلزپارٹی کے سینکڑوں کارکن ان کے ساتھ پارٹی کو خیر آباد کہہ آئے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کی حمایت کا اعلان کافی تاخیر سے کیا گیا، اس طرح ان کی انتخابی مہم بھی تاخیر سے شروع ہوئی، مسلم لیگ ن ملتان کے عہدیداروں و کارکنوں کو مخدوم جاوید ہاشمی کو ذہنی طور پر قبول کرنے میں کچھ دن لگ گئے۔ کچھ ایسے بھی تھے، جنہوں نے الیکشن کے دو روز قبل تک بھی قبول نہ کیا۔ عمران خان کا ملتان میں جلسہ عام ان کی حمایت یافتہ امیدوار کی کامیابی کی اہم وجہ قرار دی جاسکتی ہے عمران خان دو مرتبہ آئے جبکہ تحریک انصاف کے مرکزی وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی بیشتر انتخابی مہم کے دوران ملتان میں مقیم رہے، اس کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کا کوئی اہم اور نامور لیڈر نہ ملتان آیا نہ اس نے انتخابی مہم میں حصہ لیا، جن لوگوں کو لاہور سے انتخابی مہم چلانے کے لئے بھجوایا گیا وہ نہ تو بڑے نام تھے نہ ہی وہ اس علاقہ کے عوام کے لئے جانی پہچانی شخصیات تھیں پھر یہ اتنی تاخیر سے آئے کہ اپنی کوشش کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرپائے مخدوم جاوید ہاشمی کی معذوری اور بیماری بھی انکی شکست کی وجہ قرار دی جاسکتی ہے۔ پوری انتخابی مہم کے دوران ان کا زور اپنی رہائش گا پر روزانہ پریس کانفرنس پر اہم ڈور ٹو ڈور مہم توبہت دور کی بات ہے وہ کارنر میٹنگز کو پورا ٹائم بھی نہ دے پائے، اس کے مقابلے میں ملک عامر ڈوگر نوجوان اور محنتی شخصیت ہیں، ان کے اس نوجوانوں کی کافی بڑی ٹیم ہے، تحریک انصاف کے نوجوان کی کمک اضافی فائدہ دے گئی، تشہری مہم پر انتخاب میں کردار ادا کیا کرتی ہے دو لوگ جنہیں اپنے پسندیدہ امیدوار کے تعین میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے وہ تشہیر مہم سے متاثر ہو جایا کرتے ہیں، اس معاملے میں بھی ملک محمد عامر ڈوگر اپنے مد مقابل امیدواروں سے بہت آگے تھے۔ انکے دوست احباب اور کارکنوں نے حلقہ کا کوئی حصہ ایسا نہ چھوڑا جہاں انکے بڑے بڑے پینا فلیکس نہ لگے ہوں انکے ساتھی تقریباً روزانہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں ریلیاں نکالتے رہے۔ لیکن مسلم لیگ ن اس کا اہتمام نہ کرسکی۔ مخدوم جاوید ہاشمی جب حتمی انتخاب لڑنے کیلئے رائے عامر کا جائزہ لے رہے تھے تو واضح طور پر کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے جانب سے انہیں بھر پور حمایت کا یقین دلایا گیا ہے، لیکن پھر معاملہ اس کے برعکس ہوگیا۔ پاکستان پیپلز پارفی نے ضد میں آکر امیدوار کھڑا کر دیا کیونکہ ملک عامر ڈوگر پارٹی ٹکٹ طلب کر کے تحریک انصاف کے کیمپ میں چلے گئے سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کو پورا یقین تھا کہ اس حلقہ میں انہوں نے جو ترقیاتی کام کروائے ہیں وہ انہیں کیش کرواسکیںگے، اسی بنیاد پر انہوں نے ڈاکٹر جاوید صدیقی کو تیار کیا حالانکہ وہ اس کے لئے قطعی تیار نہ تھے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے ڈاکٹر جاوید صدیقی کی انتخابی مہم چلانے کا حق ادا کردیا انکا صاحبزادہ عبدالقادر گیلانی لاہور میں اپنے گارڈ کے ہاتھوں نوجوان کی ہلاکت کے باعث مشکل میں تھے، لیکن سید یوسف رضا گیلانی پوری تندی سے انتخابی مہم میں شریک رہے ڈاکٹر جاوید ہاشمی جس حلقے سے ایم پی اے منتخب ہوچکے ہیں وہ این اے 149 کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہے، بیشتر علاقے انکے لئے نئے اور وہ حلقہ کے عوام کے لئے نئے تھے، پھر ان کے مقابلے میں نامی گرامی شخصیات تھیں، وہ واحد امیدوار تھے جو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے لیکن ہوا ان کے مواقف نہ تھی۔ اور انہیں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ملکی سیاست کی تین نامور شخصیات سید یوسف رضا گیلانی مخدوم شاہ محمود قریشی اور مخدوم جاوید ہاشمی کا مستقبل اس ضمنی الیکشن سے جڑا ہوا تھا جس میں مخدوم شاہ محمود سرخرو ہوئے جبکہ باقی دو مخدوم سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم جاوید ہاشمی کو سبکی کا سامنا ہے اور دونوں کے سیاسی مستقبل کو دھچکا لگا ہے، ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی 2013ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 10 ہزار سے زائد ووٹوں کی اکثریت سے جیتے تھے۔ اب 2014ء کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی حمایت کے باوجود تقریباً چودہ ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ 2008ء کے عام انتخابات میں مخدوم جاوید ہاشمی نے پہلی مرتبہ اس حلقہ سے انتخاب لڑا تھا، اور مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر 70864 ووٹ حاصل کئے تھے اس الیکشن میں ملک عامر ڈوگر کے والد ملک صلاح الدین ڈوگر مرحوم پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر مد مقابل تھے اور 45656 لیکر ہار گئے تھے اب مرحوم کے صاحبزادے ملک عامر ڈوگر نے 6 سال بعد اپنے والد کی شکست کا بدلہ لے لیا ہے شیخ طاہر رشید نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر 10810 ووٹ لئے تھے جب اس الیکشن میں وہ صرف 1446 ووٹ حاصل کرپائے ہیں۔
ضمنی انتخاب میں ٹرن اوٹ حسب معلوم رہا ہے 2002ء کے الیکشن میں یہاں ٹرن اوٹ 27.8 فیصد رہا۔ 2008 کے عام انتخابات میں 30.3 فیصد رہا، 25 فروری 2012ء کے ضمنی الیکشن میں ٹرن اوٹ 29.6 رہا، حالیہ ضمنی الیکشن میں یہ ٹرن اوٹ 29.37 فیصد رہا بہت سے لوگ کاخیال ہے کہ ٹرن اوٹ بہتر ہوتا اور حلقہ کا پڑھا لکھا ووٹر باہر نکلتا تو حالات مختلف ہوسکتے تھے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...