ایک بہادر آدمی ہاشمی ہاشمی اور ’’ہاں میں باغی ہوں‘‘ کا مصنف اپنی زندگی کا اہم انتخاب ہار گیا۔ انہوں نے 38393 ووٹ لیے جبکہ عامر ڈوگر نے 52321 ووٹ اور جاوید صدیقی نے 6326 ووٹ حاصل کیے۔ عامر ڈوگر نے جاوید ہاشمی کو 14000 ووٹوں سے شکست دیدی۔ جاوید ہاشمی نے ایک مدبر سیاستدان کے طور پر ابتدائی نتائج کے بعد ہی کھلے دل کے ساتھ اپنی شکست کو تسلیم کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تبدیلی کنٹینر کے ذریعے نہیں بلکہ ووٹ کے ذریعے ہی آسکتی ہے۔ اسلام آباد کے دھرنوں اور جاوید ہاشمی کی بغاوت نے ملتان کے ضمنی انتخاب کو انتہائی اہم بنادیا تھا۔ اولیاء کی سرزمین پر تین مخدوم سیاسی بقا کی جنگ لڑرہے تھے۔ مخدوم جاوید ہاشمی خود اُمیدوار تھے جن کو مسلم لیگ(ن) اور مذہبی جماعتوں کی سپورٹ حاصل تھی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی آزاد اُمیدوار عامر ڈوگر کو سپورٹ کررہے تھے۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی جاوید صدیقی پی پی پی کی انتخابی مہم چلارہے تھے۔ ان کی آرزو یہ تھی کہ عامر ڈوگر کو پی پی پی کے ووٹ نہ مل سکیں اور جاوید ہاشمی انتخاب جیت جائیں تاکہ تحریک انصاف کی لہر کو روکا جاسکے۔ عامر ڈوگر کو یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں ڈپٹی وزیراعظم کہا جاتا تھا۔ ایک بااعتماد ذریعے کے مطابق وزیراعظم گیلانی نے عامر ڈوگر کو ملتان میں 25 سی این جی سٹیشن الاٹ کیے تھے۔ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے پی پی پی کی نظریاتی سیاست کو مفاداتی سیاست میں تبدیل کردیا تھا۔ پی پی پی کے حامیوں نے ان کے انداز سیاست کو تسلیم نہیں کیا۔ بلاول بھٹو زرداری جب تک مکروہ اور بدنام چہروں کو سیاسی منظر سے نہیں ہٹائیں گے پنجاب میں ان کی سیاست کا چراغ نہیں جل سکے گا۔ملتان میں شکست کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی سر جوڑ کر بیٹھ جائیں گے اور اگلے انتخابات کے لیے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے عمران خان کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے۔ تحریک انصاف کو بھی ہم خیال جماعتوں کے ساتھ رابطے کرنے چاہئیں۔
جاوید ہاشمی کی سیاسی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہے ہیں۔ انہوں نے بھٹو شہید کے خلاف جہا کیا۔ جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ اور کابینہ کے رکن بن گئے اور کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء الحق کے خلاف بغاوت کردی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بغاوت کے الزام میں کئی سال قید رہے۔ جاوید ہاشمی نے 2008ء کے انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر ملتان، راولپنڈی اور لاہور سے قومی اسمبلی کی تین نشستیں جیتیں۔ انہوں نے اس لیے وزیر بننے سے انکار کردیا کیونکہ وہ جنرل پرویز مشرف سے حلف نہیں اُٹھانا چاہتے تھے۔ جاوید ہاشمی کی سیاست بے چین اور بے قرا ر ہی رہی ہے۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے وہ پر اسرار طور پر مسلم لیگ(ن) کو خیر باد کہتے ہوئے تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے 2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ملتان اور اسلام آباد کی قومی اسمبلی کی 2 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست 149 ملتان میں 83569 ووٹ حاصل کیے۔ گزشتہ ماہ انہوں نے تحریک انصاف کے خلاف بھی بغاوت کردی۔ وہ گاہے بگاہے میاں نواز شریف کو اپنا قائد قرار دیتے رہے۔ ان کا یہ مؤقف سیاسی اخلاقیات کے برعکس تھا۔ وہ تحریک انصاف کے صدر تھے اور عمران خان چیئرمین تھے۔ جاوید ہاشمی قومی اسمبلی کے استعفیٰ پر دستخط کرنے کے باوجود پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں چلے گئے اور اپنے خطاب میں عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ پاکستان بھر میں ان کی اس بغاوت اور تحریک انصاف کی اندرونی باتوں کو منظر عام پر لانے کے عمل کو پسند نہ کیا گیا اور انہیں ملتان میں اپنی مہم جوئی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ کاش وہ اختلاف رائے کے باوجود تحریک انصاف کے ساتھ جڑے رہتے اور کچھ عرصہ کے لیے خاموشی اختیار کرلیتے۔ انہوں نے کھلے دل کے ساتھ اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ کیا وہ بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے کارکنوں سے معافی مانگ لیں گے۔افسوس جاوید ہاشمی نے شب و روز جدوجہد کرکے جو مقام حاصل کیا تھا وہ خود ہی اس سے گر گئے۔
مخدوم جاوید ہاشمی (بالٹی) اور عامر ڈوگر (خرگوش) ہر چند کہ آزاد اُمیدوار تھے مگر دونوں کو مضبوط سیاسی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ مسلم لیگ(ن) خوف کا شکار تھی اس لیے اس نے اپنا اُمیدوار کھڑا نہ کیا حالانکہ 2013ء کے انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کے اُمیدوار طارق رشید نے 73861 ووٹ لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنا اُمیدوار نامزد کرتی اور شیر کے انتخابی نشان پر سنجیدگی سے انتخاب لڑتی تو اس کی فتح کے امکانات بڑھ جاتے۔ تحریک انصاف کے اراکین چونکہ اسمبلیوں سے مستعفی ہوچکے تھے اور اسمبلیوں کو جعلی قرار دیا جارہا تھا اس لیے تحریک انصاف کے لیے اُمیدوار کھڑا کرنا ممکن نہ تھا البتہ تحریک انصاف نے باغی کو داغی ثابت کرنے کے لیے آزاد اُمیدوار عامر ڈوگر کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ شاہ محمود قریشی نے عامر ڈوگر کی انتخابی مہم چلائی اور اسے کامیاب کرا کر جاوید ہاشمی کی بے وفائی کا بدلہ لے لیا۔ مسلم لیگ(ن) نے کوشش کی کہ تحریک انصاف کے تاریخ ساز جلسے میں ہونے والی ہلاکتوں کو جوازبنا کر انتخابات کو ملتوی کرادے مگر الیکشن کمشن نے پنجاب حکومت کی درخواست مسترد کردی۔ وفاق اور پنجاب کی حکومتیں خوف کے سایے میں کام کررہی ہیں ۔جس سے پاکستان اور عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
ملتان کے ضمنی انتخاب میں ٹرن آئوٹ 29 فیصد رہا۔ اگر شیر اور بلا میدان میں ہوتے اور انتخاب جمعہ کو کرایا جاتا تو ٹرن آئوٹ زیادہ ہوتا۔ مسلم لیگ(ن) پنجاب میں حکومت اور ملتان میں ترقیاتی کاموں کے باوجود ضمنی انتخاب ہار گئی ہے ۔ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ عوام ترقیاتی کاموں کو کسی کا احسان نہیں بلکہ اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیںاور ووٹ دیتے وقت وہ اپنی روز مرہ کی زندگی کے مسائل کو سامنے رکھتے ہیں۔ہرچند کہ 2013ء کے انتخاب میں بھی یہ نشست تحریک انصاف نے جیتی تھی۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت اگر بجلی اور پراپرٹی ٹیکس کے بلوں میں سنگدلانہ بلکہ وحشیانہ اضافہ کرکے عوام کو زچ نہ کرتی تو اس کی مقبولیت کا گراف نیچے نہ آتا۔ تحریک انصاف کے تاریخ ساز جلسے اور ضمنی انتخاب میں کامیابی کے بعد جنوبی پنجاب کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ جاوید ہاشمی کی شکست کے بعد جنوبی پنجاب کے بااثر سیاسی خاندان تحریک انصاف کی جانب رخ کریں گے۔ پاکستان کے عوام ذہنی طور پر تبدیلی پر مائل ہوچکے ہیں۔ وہ اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دے کر عملی انقلاب برپا کردیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں سیاسی زوال کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔
تحریک انصاف پنجاب میں بھی نمبرون پوزیشن حاصل کرلے گی۔ پی پی پی کا پنجاب میں مقبولیت کا گرا ف مزید نیچے چلا گیا ہے۔ ملتان کی نشست پر پی پی پی نے 2013ء میں 20712 ووٹ لیے تھے جو گھٹ کر صرف 6389 رہ گئے ہیں۔ ملتان کے انتخابات کے بعد پی پی پی کی قیادت کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ افسوس الیکشن کمشن ایک بار پھر انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل کرانے میں ناکام رہا۔ پے درپے ناکامیوں اور 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے سنگین الزامات کے بعد موجودہ الیکشن کمشن کو مستعفی ہوجانا چاہیئے۔ تحریک انصاف کی قیادت انتخابی اصلاحات پر توجہ دے تاکہ اگلا انتخاب چرایا نہ جاسکے۔ جاوید ہاشمی اگر انتخابی سیاست کو خیر اباد کہہ کر سیاسی کارکنوں کی تربیت کے لیے اکیڈمی قائم کریں تو ان کی عاقبت سنور جائے گی۔وہ مکروفن کی سیاست سے جتنی جلد باہر نکل آئیں اتنا ہی ان کے لیے بہتر ہوگا۔کیا مسلم لیگ(ن) کی قیادت ملتان میں واضح شکست کے بعد اپنے رویے اور انداز سیاست و حکومت تبدیل کرسکے گی۔ محسن انسانیت حضور اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ احد کا پہاڑ اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے مگر انسان اپنی عادتیں تبدیل نہیں کرسکتا۔
ملتان کا انتخابی معرکہ اوراسکے اثرات
Oct 18, 2014