جسے انکار کرنا نہیں آتا وہ اقرار کرنے میں منافقت سے کام لیتا ہے۔ کبھی کبھی انکار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کی طاقت، دلیری اور دیانت داری کا پتہ چلتا ہے۔ انکار کیلئے جرات انکار کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ کبھی اقرار کیلئے جرات اقرار کی مثال نہیں دی جاتی۔ جرات انکار کرنے والے کیلئے جرات اقرار برحق اور برمحل بات ہے بلکہ اسے برملا بھی کہا جا سکتا ہے۔ آجکل محرم کا مہینہ ہے، سارے زمانے کے امام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے انکار ہی تو کیا تھا۔ اس سے بڑی جرات انکار کی بات دنیا کی تاریخ میں نہیں ہے۔ ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کا یہ واقعہ ساری انسانیت کیلئے فخر کا باعث بن گیا ہے۔ یہ افضل جہاد ہے اور اس کی افضل ترین مثال شہادت حسینؓ ہے۔ یہ لازوال مصرعہ برادرم شہید سید ڈاکٹر شبیہ الحسن نے میرے تعارف کے طور پر کئی بار پڑھا تھا…
زندہ رہو حسین کے انکار کی طرح
یہ باتیں مجھے یاد آئیں کہ ہم چھوٹے چھوٹے واقعات میں بھی اس کا خیال نہیں رکھتے۔ وزیراعلیٰ سندھ سائیں سید قائم علی شاہ نے حیدر آباد میں کرکٹ گرائونڈ میں اپنا ہیلی کاپٹر اتارا اور وہاں ہونے والا انڈر 19 کھلاڑیوں کا قومی سطح کا میچ رکوا دیا۔ یہ کارروائی انڈر 90 وزیراعلیٰ نے کی۔ تمام کھلاڑی باہر نکال دیئے گئے۔ شہر میں کئی اور مقامات ہیں جہاں سائیں سرکار کا اڑن کھٹولہ اتر سکتا تھا۔ سائیں کو پتہ تو چل گیا کہ زیادتی ہو گئی ہے۔ وہ کسی اور ’’کام‘‘ سے آئے تھے مگر گرائونڈ میں اترتے ہی یہ بات پھیلا دی گئی کہ سائیں جی کھلاڑیوں سے ملیں گے۔ سب کھلاڑی خوشامدی سیاستدانوں کی طرح قطار باندھ کر کھڑے ہو گئے اور سائیں سرکار سے ہاتھ ملانے کا ’اعزاز‘‘ حاصل کیا۔ میچ رکوانے پر مقامی قیادت کے علاوہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کا شکریہ ادا کیا۔ ہمارے نااہل حکمرانوں نے ملک میں نجانے کیا کیا اچھی کارکردگی رکوا دی ہے۔ درجنوں گاڑیاں گرائونڈ میں گھس آئیں، شاید وہ بھی کوئی کھیل کھیل رہی تھیں! بڑی ڈھٹائی سے سائیں سرکار نے کہا کہ کھیل مثبت عمل ہے، اسے جاری رہنا چاہئے مگر حکمرانوں نے کب کوئی مثبت کام آرام سے جاری رہنے دیا ہے۔ سیاستدان اور بیوروکریسی دونوں اچھی کارکردگی کے دشمن ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ بھٹو صاحب کو لوگوں نے جوتے دکھائے تو انہوں نے کہا مجھے معلوم ہے کہ جوتے مہنگے ہو گئے ہیں۔ سائیں قائم علی شاہ کو بھی کھلاڑیوں سے ملنا پڑا۔
اس موقع پر میری خواہش تھی کہ کھلاڑی جابر غلام اور بے بس وزیراعلیٰ کے ساتھ ملنے سے انکار کر دیتے، اسے کچھ احساس تو ہوتا۔ ہم اپنے ساتھ زیادتیوں کے خود بھی ذمہ دار ہیں۔ انکار اور احتجاج کبھی کبھی بڑا ضروری ہوتا ہے۔
میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ سردار ایاز صادق عمران کے مقابلے میں جس طرح بھی جیتے تھے مجھے کچھ کچھ خوشی ہوئی تھی مگر عبدالعلیم خان کے مقابلے میں بہت کم ووٹوں سے ساری سرکاری مشینری استعمال کر کے بھی وہ جیت تو گئے ہیں مگر مسلم لیگ ن والوں کو بھی خاص خوشی نہیں ہوئی۔ پنجاب مسلم لیگ ن نے اس حوالے سے انکوائری کمیٹی بھی بنا دی ہے۔ مجھے بھی خوشی نہیں ہوئی۔ میں عبدالعلیم خان کی شکست کو ’’شکست فاتحانہ‘‘ کہتا ہوں۔
اس حوالے سے یہ بات میں کرنا چاہتا ہوں کہ اتنے عرصے کے لئے سپیکر کی سیٹ خالی رکھی گئی ہے۔ نجانے نواز شریف کی سیاست کیا ہے؟ اس موقع پر سردار ایاز صادق کو دوبارہ سپیکر بننے سے انکار کر دینا چاہئے۔ ان کی سیٹ اب بھی متنازعہ بن گئی ہے۔ اس کی طرف علیم خان نے بھی اشارہ کیا اور یہ ایاز صادق کے حق میں کیا ہے مگر یہ مکمل نہیں ہے۔ سردار ایاز صادق کو وی وی آئی پی پروٹوکول اور سکیورٹی کی عادت پڑ گئی ہے۔ وہ دو سال سے اپنے حلقے کے کسی آدمی سے نہیں ملے۔ حلقے کا کوئی کام انہوں نے نہیں کیا۔ انہیں اپنے نام کے ساتھ اب سردار کا لفظ بھی لکھنے سے انکار کر دینا چاہئے تھا جبکہ ان کے ہر پوسٹر اور اشتہار میں سردار موجود ہے۔
اب جاگیرداری اور سرداری کا زمانہ نہیں ہے مگر اس خطاب کے بغیر ہمارے بڑے سیاستدانوں کی تسلی نہیں ہوتی۔
ایاز صادق کے مقابلے عبدالعلیم خان کے کام اس حلقے میں زیادہ ہیں۔ اسی لئے تو اپنی جماعت تحریک انصاف کے کچھ لوگوں کی درپردہ سخت مخالفت کے باوجود انہوں نے اتنے زیادہ ووٹ لئے۔ ایاز صادق نوبل آدمی ہیں۔ وہ ارسٹوکریٹ آدمی ہی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بیورو کریٹ اور ارسٹوکریٹ، ڈیموکریٹ اور ڈپلومیٹ ایک جیسی مخلوق ہے۔ جو عام لوگوں پر مسلط ہو گئی ہے۔ بہرحال میری گزارش ایاز صادق سے ہے کہ وہ دوبارہ سپیکر بننے سے انکار کر دیں یہ انکار کی بہت معمولی معمولی مثالیں ہیں مگر ہم چھوٹے چھوٹے موقعوں پر بھی جرات انکار کی معمولی سی مثال قائم کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ ہم جائز معاملے میں انکار نہیں کر سکتے تو جرات انکار کیسے کریں گے…؟ کچھ اور مثالیں بھی مرے ذہن میں ہیں پھر کبھی سہی…؟