لاہور (خبرنگار) آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) ضیاء الدین خواجہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف کو دورۂ امریکہ کے دوران امریکی حکومت پر واضح کردینا چاہئے کہ جو ہمارے ملکی مفاد میں ہے وہی کچھ کریں گے، آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہیں۔ امریکیوں کے ایما پر اگر افغان حکومت سے ملکر طالبان کیخلاف جنگ چھیڑی گئی تو پاکستان میں جو امن قائم ہوا ہے وہ تباہ ہوسکتا ہے۔ ہمیں طالبان کو ناراض نہیں کرنا چاہئے، اس سے ہمیں نقصان ہوگا۔ امریکی صدر بارک اوباما کی طرف سے 2016ء کے بعد بھی افغانستان میں امریکی افواج کے قیام کے بارے میں بیان پر نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کو پہلے غلط فہمی تھی کہ اس نے کابل میں جو حکومت بنائی ہے وہ افغانستان کی صورتحال کنٹرول کرلے گی مگر افغان حکومت کو طالبان کے ہاتھوں بری طرح ناکامی ہوئی، اب تو داعش بھی افغانستان پہنچ گئی ہے۔ امریکی داعش کو صرف وہاں دیکھنا پسند کرتے ہیں جہاں انہیں فائدہ ہو۔ اس کیلئے وہ پالیسی بھی تبدیل کرلیتے ہیں مگر طالبان داعش کو پسند نہیں کرتے۔ امریکی پاکستان کو افغانستان میں دوبارہ ملوث کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جیسے روس کیخلاف آئی ایس آئی نے مجاہدین کی مدد کی تھی، اب آئی ایس آئی اور پاکستان دوبارہ افغانستان میں کردار ادا کریں اور آئی ایس آئی افغان حکومت، امریکہ کی ’’مددگار‘‘ بنے۔ امریکیوں کیلئے افغانستان کی موجودہ حکومت کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ کسی بھی وقت اسے تبدیل کرسکتے ہیں۔ اب ان کی بنیادی ضرورت پاکستان ہے وہ چاہتے ہیں پاکستان اب ان کی افغانستان میں کھل کر مدد کرے مگر ایسا کرنا اب پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ پاکستان کے روس سے تعلقات اب بہتر ہو رہے ہیں۔ روس پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ وہ اقتصادی راہداری میں شمولیت کیلئے تیار ہے۔ چین کے افغانستان کے حوالے سے اپنے مفادات ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی حکمرانوں کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے۔ امریکی دھمکیوں کو نظرانداز کر دینا چاہئے۔ اگر حکمرانوں نے پاکستان کو افغانستان میں جھونکا تو نقصان ویسا ہی ہوگا جیسا مشرف کے غلط فیصلے کی وجہ سے ہوا تھا۔ ہر ملک اپنے مفاد میں فیصلے کرتا ہے۔ امریکہ پر واضح کرنا ہوگا کہ افغانستان میں ملوث ہونا ہمارے ملکی مفاد میں نہیں۔ آج پھر کرزئی متحرک ہو رہا ہے، اسکا واحد مقصد پھر کرپشن ہے۔ اسے بھارتی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان کی دلدل میں پھنس جائے۔ خدشہ ہے کہ افغانستان کے دو حصے یا مزید چھوٹے حصے نہ ہو جائیں۔ روس، چین اور پاکستان کے افغانستان میں مفادات میں افغانستان کو ٹکڑوں میں تقسیم ہونے سے صرف طالبان ہی بچا سکتے ہیں مگر ضروری ہے کہ وہ اپنے پتے صحیح طریقے سے کھیلیں۔ افغانستان میں طالبان کی مقبولیت بڑھی ہے کیونکہ طالبان کے بعد افغانستان میں کرپشن اور منشیات کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ افغان عوام میں اب یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ طالبان بہتر تھے۔