پاکستان، روس گیس معاہدہ انتہائی اہم، ”اپنے اپنے بے وفاﺅں نے دونوں کو یکجا کردیا“: بی بی سی

اسلام آباد/ماسکو(این این آئی)پاکستان اور روس کے درمیان کراچی کے مائع گیس ٹرمینل سے لاہور تک 1100 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھانے کے سمجھوتے کو عالمی سطح پر بڑی اہمیت دی جارہی ہے اور بین الاقوامی میڈیا کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کو انکے اپنے اپنے ”بے وفاو¿ں“ نے یکجا کر دیا ہے اور اگر بھارت امریکہ کی طرف جھک رہا ہے تو روس بھی پاکستان پر نوازشیں کرنے لگا ہے جو اسکی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی کااظہار ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پائپ لائن منصوبے پر دو سے ڈھائی ارب ڈالر لاگت آئیگی۔ رپورٹ کے مطابق دو ماہ قبل اگست میں طے پایا کہ روس پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد کیلئے چار جدید ترین ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر فراہم کریگاجبکہ مزید ہیلی کاپٹروں اور ایس یو 35 (سخوئی) ساخت کے جنگی طیاروں کے حصول کی بات چیت بھی جاری ہے۔جولائی میں وزیر اعظم نواز شریف کی روسی شہر اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں صدر پیوٹن سے ملاقات ہوئی اور ایس سی او کی باضابطہ رکنیت کے لیے روسی حمایت پر نواز شریف نے صدر پیوٹن کا ذاتی شکریہ ادا کیا۔جون میں جنرل راحیل شریف نے روس کا تین روزہ دورہ کیا اور روسی عہدیداروں سے نہ صرف عسکری تعاون بڑھانے پر بات کی بلکہ نئے روسی اسلحے کی نمائش میں بھی گہری دلچسپی ظاہر کی۔گذشتہ برس نومبر میں روس نے پاکستان پر سے اسلحہ کی فروخت کی پابندی اٹھا لی۔ ستمبر 2011 میں سابق صدر آصف علی زرداری نے روس کا سرکاری دورہ کیا۔ 2007 میں روسی وزیراعظم میخائیل فیدروکوف نے پاکستان کا دورہ کیا۔ 38 برس میں وہ پاکستان کا دورہ کرنے والے اعلیٰ ترین روسی عہدیدار تھے۔ پچھلے 12 برس کے دوران روس اور پاکستان کے مابین جتنے اہم سمجھوتے ہوئے اور جس سطح کی دو طرفہ آمد و رفت بڑھی ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔تو ان 12 برس میں ایسا کیا ہوگیا کہ دونوں ممالک کی 56 سالہ سرد مہری گرم جوشی میں بدلنا شروع ہوگئی اور آج یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ وہی پاکستان ہے جس کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سوویت قیادت کی جانب سے دورہِ ماسکو کا دعوت نامہ جھٹک دیا تھا۔پاکستان سوویت یونین کا گھیراو¿ کرنے والے امریکی اتحاد سیٹو اور سینٹو کا حصہ بنا۔ سرد جنگ کے عروج میں امریکہ کو روسی جاسوسی کے لیے فضائی سہولتیں فراہم کیں اور افغانستان میں روسی فوجی موجودگی کے خلاف دس برس تک ہراول دستے کا کردار نبھایا۔اور کیا یہ وہی ماسکو ہے جس کی سابق کیمونسٹ قیادت نے 50 کے عشرے میں مسئلہ کشمیر پر بھارت کی کھل کر حمایت کی۔بڈھ بیر کے فضائی اڈے سے امریکی جاسوس طیاروں کی پروازوں کے بعد پاکستان کے گرد سرخ دائرہ کھینچ دیا۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوانے میں بھارت کا کھل کر فوجی و سیاسی ساتھ دیا۔افغان خانہ جنگی کے دوران پاکستان کو ایک کلیدی علاقائی دشمن کے طور پر دیکھا اور اب یہ ہے کہ دونوں ممالک ماضی کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے تعلقات کو مستحکم اور مفید بنانے کے لیے بظاہر سنجیدگی سے کوشاں ہیں۔معاملہ سیدھا سیدھا ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں نہ مستقل دشمنیاں ہوتی ہیں نہ دوستیاں۔ دوام صرف ضرورت اور مفاد کو ہے۔ بھارت امریکہ کی جانب کھچے گا تو پاکستان، چین اور روس میں قربت بڑھے گی۔رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کا دوطرفہ ڈسا پاکستان مشرقِ وسطی میں نئے شعیہ سنی مناقشے کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتا۔ پاکستان ترقی بھی چاہتا ہے مگر مغربی امداد کی کڑی شرائط بھی گوارا نہیں۔امریکہ سے دوطرفہ تعلقات کی پائیداری پر نہ پاکستان کو بھروسہ ہے نہ امریکہ کو مگر افغانستان میں قیام ِ امن کے لیے پاکستان کی اہمیت کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔چین اور روس بدلے ہوئے عالمی توازنِ طاقت میں ایک دوسرے کی معاشی و عسکری ضرورت ہیں۔ گذشتہ برس دونوں طاقتوں نے گیس کی تجارت کے 400 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے۔یوکرین کے معاملے پر مغرب جس طرح روس کو تنہا کرنے کے لیے کوشاں ہے اور شام کے مسئلے پر روس اور پاکستان کے معتمد دوست چین کے مابین جو غیر اعلانیہ ہم آہنگی ہے وہ بھی پاکستان کی روایتی پالیسی پر اثرانداز ہو رہی ہے۔چین کو مشرقِ وسطیٰ کے تیل اور اپنی اشیا کی ترسیل کے لیے جو مختصر زمینی راستہ درکار ہے، روسی کمپنیوں کو سابق وسطی ایشیائی ریاستوں کے معدنی ذخائر کی برآمدگی اور تیل و گیس کی نئی پائپ لائنوں میں سرمایہ کاری کے لیے جن تازہ منڈیوں اور مواقع کی تلاش ہے، بحیرہ جنوبی چین میں جس طرح جاپان اور امریکہ کے ساتھ چینی زور آزمائی کا امکان بڑھ رہا ہے۔ اس عرصے میں بھارت کی چین سے مقابلے کی خاطر مغربی ٹیکنا لوجی، سرمایہ کاری اور سٹرٹیجک و جوہری تعاون کی ضروریات میں جس طرح اضافہ ہو رہا ہے ان کے ہوتے بھارت کا محض روس پر روایتی دفاعی و سٹرٹیجک تکیہ ناکافی ہے۔ حالات، ستاروں اور مفادات کو نئے مداروں کی تلاش ہے گویااپنے اپنے بے وفاو¿ں نے ہمیں یکجا کیا۔
بی بی سی رپورٹ

ای پیپر دی نیشن