کراچی دنیا کے محفوظ ترین شہروں کی لسٹ میں اور چھرامارکارروائیاں

عالمی جریدے”دی اکانومسٹ“ نے شہر قائد کو دنیا کے 60 محفوظ ترین شہروں کی لسٹ میں شامل کردیا ہے۔ اس فہرست میں کراچی کا ساٹھواں نمبر ہی سہی لیکن دنیا کا ساٹھواں محفوظ ترین شہر آجکل دہشت کی علامت ہے‘ ایک خوف و ہراس کی فضا ہے‘ بالخصوص خواتین ا پنے قریب سے گزرنے والے موٹر سائیکل سوار سے خوفزدہ ہیں کہ وہ کہیں وہی چھرا مار شخص نہ ہو جس نے نہ صرف گلستان جوہراور گلشن اقبال کے علاقوںمیں خواتین کو نشانہ بنا کرزخمی کردیابلکہ اس نا معلوم ”چھلاوے“ نے نارتھ ناظم آباد میں بھی راہ چلتی خاتون کو تیز دھار آلے سے حملہ کرکے زخمی کردیا جس کے بعد زخمی خاتون نے قریبی تھانے جا کر صورت حال سے آگاہ کیا اور رپورٹ لکھوائی۔ متاثرہ خاتون کے مطابق ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل سوار نے پیچھے سے ان پر حملہ کیا اورزخمی کرنے کے بعد فرار ہوگیا۔ یوں محفوظ ترین شہر کے علاقے گلستان جوہر اور گلشن اقبال کے بعد ناظم آبادمیں ہونے والے واقعے نے پولیس کی پریشانیوں بلکہ پولیس و دیگر سیکیورٹی اداروں کی ناکامیوں میں مزید وسعت کردی جو تمام تر پھرتیوں اور جستجو کے باوجوداس ”چھلاوے“ کو نہیں پکڑ سکی ہے۔ 4 اکتوبر کو ڈیڑھ گھنٹے کے دوران اس چھلاوے نے الگ الگ واقعات میں 5 لڑکیوںپرحملہ کرکے انہیں زخمی کردیا تھا‘ اسی طرح اب تک ڈیڑھ درجن سے زائد خواتین پر حملے ہوچکے ہیں لیکن ملزم نہیں پکڑا جاسکا ہے جس پرایک جانب سندھ میں اپوزیشن جماعتوں کو حکومت پر تنقید کرنے کا موقع ملا ہے‘ ایم کیو ا یم اور(ن) لیگ نے ملزم کی عدم گرفتاری پر احتجاج کیا ہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ نے حملہ آورکی عدم گرفتاری پر اظہار برہمی کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ حکومت نے ملزم کی گرفتاری میں مدد دینے پر 5 لاکھ روپے کا انعام کا اعلان کیا تھا‘ جسے اب بڑھا کر 10 لاکھ کردیا ہے۔ پولیس اس شخص کو نفسیاتی اوردیوانہ قرار دے رہی ہے اور ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ کو یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ ملزم چاقو سے نہیں بلکہ سرجیکل بلیڈ یا اس سے ملتا جلتا کوئی آلہ استعمال کررہا ہے‘ جو بازار میں عام دستیاب ہے۔سوشل میڈیا پر اسی چھرے مار شخص کی گرفتاری کے حوالے سے ایک پوسٹ نظر سے گزری کہ ہمارے ادارے اس قدر مستعد ہیں۔ پولیس اس قدر چوکس اور ہوشیار ہے کہ جب پکڑنے پر آتے ہیں تو24 گھنٹے کے اندر کسی بھی شہر سے ملزم پکڑ لیتے ہیں۔ قبرستانوں اور گھروں میں بنے انڈر گراﺅنڈ واٹر ٹینکس سے اسلحہ برآمد کرلیتی ہے۔ پر حیرت ہے کہ گزشتہ ماہ سے خواتین کو زخمی کرنے والا ”چھلاوہ“ نہیں پکڑا جاسکا ہے۔یہ پولیس کے لئے چیلنج بن گیاہے‘ جس سے نمٹنے کے لئے گلستان جوہر اور اس کے اطراف میں 5 تھانوں کی حدودمیں خواتین اور بچوں کی حفاظت اورملزم کی گرفتاری کے لئے انتہائی خفیہ اور اہم پلان تیار کیاگیا اوراس پلان کے بارے میں میڈیا کو ملزم کی گرفتاری تک کسی قسم کی معلومات شیئر نہ کرنے کافیصلہ کیا گیا تاکہ وہ ہیلمٹ پوش موٹرسائیکل سوار پولیس پلان سے ناواقف رہے۔ سندھ کے وزیر سید ناصر شاہ اور ڈی جی رینجرز کی طفل تسلیوں اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے سخت نوٹس کے باوجوداصل ملزم کی عدم گرفتاری پر پولیس کی نیندیں حرام ہیں‘ سیاسی جماعتوں اور سوشل تنظیموں کا احتجاج اور عوام کا رد عمل پولیس کے لئے پریشان کن ہے۔ دوسری جانب پولیس ملزم کی زندہ گرفتاری کے لئے کوشاں ہے۔ پولیس کوڈر ہے کہ ملزم اگر عوام کے ہتھے چڑھ گیا تو وہ اسے کسی صورت زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ یہ چھلاوہ جہاں خواتین کے لئے خوف کی علامت بن گیا ہے وہیں پولیس کے لئے بھی ایک ڈراﺅنا خواب بن گیاہے‘ جس کی گرفتاری کے لئے تھانوں کی سطح پر مخبری کے نیٹ ورک کو ایک بار پھر فعال کرنے کا حکم دیا گیاہے۔ اس سلسلے میں اسپیشل برانچ پولیس کو بھی چھرے مار ملزم کا خصوصی ٹاسک دے دیا گیا۔ پولیس کے تقریباً تمام یونٹس کے اہلکار وردی اور سادہ لباس میں 24 گھنٹے ڈیوٹیاں کررہے ہیں‘ تاہم پولیس کو ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس اطلاع نہیں مل رہی‘ پولیس بدستور تلاشی میں سرگرداں ہے۔ دوسری جانب پر اسرار حملہ آور کے بارے میں شہریوں کی جانب سے متضاد اطلاعات نے بھی پولیس کو پریشان کردیا ہے جس کی بناء پر غلط اطلاعات دینے والوں اور افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ حملہ آور کون ہے اس کے کیا مقاصد ہیں؟ اور یہ کارروائیاں کیونکر ہورہی ہیں؟ کیاپولیس کا نیٹ ورک اس قدر کمزور ہے کہ کوئی حملہ آور اس طرح کارروائیاں کررہا ہے اورپولیس ناکام شہر میں نصب ہزاروں سی سی ٹی وی کیمرے اور نیٹ ورک چہ معنی دارد۔ یہ ہماری ایجنسیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
اگرچہ پولیس نے اس چھرے مار ”چھلاوہ“ کے شبہ میں درجنوں افراد سے پوچھ گچھ کرلی ہے اور 15 اکتوبر 2017ءہفتہ کو یہ دعویٰ کردیا کہ مشتبہ ملزم کو گوجرانوالہ سے گرفتارکرلیا جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق ملزم کو منڈی بہاﺅ الدین سے گرفتارکرلیاگیا۔ دوسری جانب کراچی پولیس کی ٹیم ساہیوال پہنچ گئی اور مبینہ چاقو مار ملزم کو کراچی منتقل کیا جائے گا۔ پولیس کے دعوﺅں کے برعکس ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ کا کہنا ہے کہ گرفتارملزم مشتبہ افراد میں سے ایک مشکوک شخص ہے جس کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں جبکہ پولیس اپنے دعوﺅں کی خود تردید کرتی نظرآرہی ہے اب دیکھنایہ ہے کہ حکومت سندھ کس حد تک ایک حقیقی ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کردار اداکرتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن