قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم

18اکتوبر 2007 کے دن ساحل سمندر کے قریب واقع پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی انسانوں کے سمندر کا سماں پیش کر رہا تھا۔ پاکستان کے طول وعرض سے آئے عوام جوش و ولولہ سے بھر پور تھے۔ ہر طرف جشن کا سماں تھا۔ لوگ عشق و جنون سے سر شار ،سر بازور رقصاں تھے۔ ان لوگوں کا پس منظر یقینا مختلف تھا۔ لیکن ان کا جذبہ ایک سا تھا۔ اور ان کی آنکھوں میں امید کی چمک یکساں تھی اور یک زبان ایک نعرہ لگاتے تھے کہ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“

بھٹو ز اور عوام کے درمیان عشق کا یہ رشتہ اور امید کا یہ تعلق دیرینہ ہے۔ بھٹو شہید نے اپنی سب سے اہم میراث اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کے سپرد کرتے ہوئے کہا ”میری پیاری بیٹی صرف عوام پر بھروسہ کرو ، انکی بھلائی اور مساوات کیلئے کام کرو۔ خُدا کی جنت ماں کے قدموں تلے ہے اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے ۔ آج میں تمہارے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیتا ہوں“۔ بی بی نے اس رشتے کو مزید مضبوط کیا اور اپنی ساری زندگی اس عہد کی تکمیل کیلئے وقف کر دی۔ قید و بند کی صعوبتیں ، آمرانہ حکومتوں کے ظالمانہ ہتھکنڈے باپ اور بھائیوں کی شہادتیں ، شوہر کی جوانی کے 12سال قید ماں کی بیماری اور بچوں کی محرومیاں بھی بی بی کو انکے مقصد سے ہٹا نہ سکے ۔ جنرل مشرف آٹھ سال سے اقتدار پر قابض تھا کوئی سیاسی قوت اسکے سامنے ٹھہر نہ سکی ایم۔ ایم ۔ اے نے 17ویں آئینی ترمیم میں جنرل مشرف کی حمایت کی تاکہ وہ وردی اتار دے۔ لیکن وہ ناکام رہے ۔ عدالت میں بیٹھا دجال بھی وردی اتروانے کے معاملے میں بھیگی بلی بن گیا۔ وہ حکمران جنہیں مشرف نے معزول کیا تھا وہ اپنی جان اور مال بچا نے کی فکر میں معافی نامہ لکھ کر سرور پیلس جدہ سدھا ر گئے۔ اور 10سال تک سیات سے توبہ تائب کر لی جبکہ آصف علی زرداری جرات و بہادری سے قید کی تکالیف برداشت کر تے رہے۔ محترمہ نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ گفتو شنید کے ذریعے اور انکے تھنک ٹینکس کو اس بات پر قائل کیا کہ پاکستان کا مقدر جمہوریت سے وابستہ ہے اور جمہورت کے بغیر امن نا ممکن ہے لہٰذا محترمہ نے اپنی حکمت اور تدبر سے جنرل مشرف کو ریٹائرڈ جنرل مشرف بنا کر ملک میں از سرِ نو جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ اور آج کے بہت سے نام نہاد سے سیاستدانوں کو سیاست کے مواقع حاصل ہوئے۔ محترمہ نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو غیر جمہوری قوتوں اور دہشت گرد انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ مگر بی بی کا جواب فیض کے اشعار میں کچھ یوں تھا۔.... ” مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیںجاں دے آئیں“
بی بی نے تمام خدشات کے باوجود عوام کے درمیان آنے کا فیصلہ کیا اپنی آخری کتاب Reconciliation میں وہ لکھتی ہیں ”میں آمروں اور انتہا پسندوں کے خلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے جدو جہد میں اپنا مثبت کردار ادا کروں گی۔ یہی میری تقدیر ہے میں اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹوں گی بلکہ اسے ادا کرنے کیلئے تیار ہوں۔“
بی بی کے واپسی کے اعلان نے آمرانہ قوتوں اور دہشت پسند عناصر پر لرزہ طاری کر دیا۔ وہ اور انکے حواری بی بی کیخلاف شدید پروپیگنڈہ کر نے لگے اور ڈیل کے الزامات لگانے لگے ۔حالانکہ جان بخشی کروا کر ملک سے بھاگنا ڈیل ہوتا ہے یا جان ہتھیلی پررکھ کر وطن واپس آنا ڈیل کہلاتا ہے؟ مگر جمہور نے اس پروپیگنڈہ کو یکسر مسترد کر دیا کہ محروم عوام بھٹو ہی کو اپنا نجات دہندہ اور امید گردانتے تھے۔ پاکستان کے عوام اس منظر کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے جب بی بی نے اپنی سر زمین پر قدم رکھا بی بی اپنے جذبات کو یوں بیان کرتی ہیں”آٹھ سال کی جلاوطنی کے بعد جیسے ہی میرے قدم اپنے وطن کی دھتی کو چھوتے ہیں میں اپنے آنسوﺅں کو چھلکنے سے روک نہ پائی اور میرے ہاتھ یکا یک خُدا کے حضور دُعا اور شکر کےلئے بلند ہو گئے۔ میں اپنی دھرتی پر جذبات سے لبریز کھڑی ہوئی آخر کار میں اپنے گھر میں واپس آگئی ہوں ۔ میں جانتی ہوں کیوں اور مجھے کیا کرنا ہے۔ بہت پہلے میں یہ انتخاب کر چکی ہوں کہ عوام میرے لئے معتبر ہیں اور سب سے معتبر رہیں گے“۔
بی بی لاکھوں لوگوں کے ساتھ مزارِ قائد کی طرف رواں دواں تھی ہر چہرہ خُوشی سے دمک رہا تھا۔لاکھوں عوام اس جلوس میں شریک تھے اور کروڑوں لوگ ان مناظر کو ٹیلی وژن کے ذریعے دیکھ رہے تھے کہ یکا تک یہ جشن خون کی ہولی میں تبدیل ہو گیا اور پاکستان کی تاریخ کے بد ترین دھماکوں سے صفِ ماتم بچھ گئی ۔ اس بد ترین صورتِ حال میں جیالے اپنی قائد کے ٹرک کی طرف دوڑنے لگے کیونکہ انہیں اپنی جانون سے زیادہ اپنی قائد کی جان عزیز تھی۔
177افراد شہید ہو گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ کئی شہداءکی شناخت نہ ہو سکی اور جب انہیں لاوارث قرار دیا جانے لگا تو انکی وارث بی بی آگے بڑھی اور کہا یہ میرے بھائی ہیں یہ بھٹو کے بیٹے ہیں لہٰذا انہیں گڑھی خُدا بخش میں دفن کیا گیا۔ انکی قبروں پر یہ کتبے لگائے گئے جن پر کنندہ تھا ”میں بھٹو ہوں“ بھٹو کسی ذات یا قبیلے کا نام نہیں رہا یہ ایک نظریہ اور فلسفے کا روپ دھار چکا ہے اسی لئے بہت سے لوگ بھٹو قبیلے سے ہوتے ہوئے بھی ”بھٹو “ نہ بن سکے اور سلمان تاثیر ، شہباز بھٹی، ادریس طوطی، عثمان غنی، رزاق جھرنا، ایاز سموں، چانڈیو، منور سہروردی اور پرویز کھوکھر بھٹو کے نام پر امر ہو گئے۔ امیدوں کا وہ قافلہ جو مزارِ قائد کی طرف رواں دواں تھا وہ رک گیا ۔ ظُلمت کے نقیب27دسمبر کی شام کو تاریک رات میں بدل کر سوچ رہے تھے کہ اب اندھیرے ہی جمہور کا مقدر ٹھہریں گے۔ لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ
نئے سورج کے ساتھ اُبھرے گاآسمان قبر میں اُتارا ہوا
آج بلاول بھٹو کی قیادت میں ہر بھٹو عہد کرتا ہے کے وہ بھٹو شہید کے نظرےات کے تحت جدوجہدکرتے ہو ے ملک کوقائداعظم کا© ” بے نظےرپاکستان “بناے گا۔
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلےں گے عشاق کے قافلے
دل والوں کوچہءجاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں

ای پیپر دی نیشن