کوٹہ سسٹم اور تعلیمی اداروں میں سیلف فائنانس اسکیم، میرٹ کا قتل عام

موجودہ کوٹہ سسٹم سابق وزیر اعظم مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نافذ ہوا، جس کی میعاد دس سال تھی۔ کوٹہ سسٹم کی میعاد دس سال مقرر کرنے کا مقصد یہی تھا کہ اس عرصے میں پسماندہ اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم بھی تعلیمی میدان میں شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم کے برابر آجائیں۔ اسی طرح ملازمتوں میں پسماندہ اور دیہی علاقوں کا کوٹہ رکھا گیا، اس کی میعاد بھی دس سال تھی،کوٹہ سسٹم کی دس سالہ میعاد میں حکومت کو تعلیم و ترقی کے حوالے سے جو کام پسماندہ اور دیہی علاقوں میں کرنے تھے حکومت وہ کام کرنے سے قاصر رہی۔دس سالہ میعاد ختم ہونے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اپنی سیاسی مصلحتوں کی خاطر کوٹہ سسٹم کی میعاد میں مزید دس سال کی توسیع کر دی اور یہ توسیع ابھی تک تواتر کے ساتھ جاری ہے لیکن پسماندہ اور دیہی علاقوں میں تعلیم و ترقی کے حوالے سے کوئی بھی حکومت کام کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتی اسی وجہ سے پسماندہ اور دیہی علاقوں میں معیار تعلیم کی سطح ہنوز شہری علاقوں کے معیار تعلیم سے پست ہے۔ اعلی پیشہ ورانہ حکومتی یونیورسٹیز اور کا لجز میں داخلے کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور جب کم امتحانی نمبر حاصل کرنے والا طالب علم محض کوٹہ سسٹم کی رعایت و سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، یونیورسٹی یا کالج میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس سے زیادہ امتحانی نمبر حاصل کرنے والا طالب علم محض کوٹہ سسٹم کی وجہ سے یونیورسٹی یا کالج میں داخلہ حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے، تو اس طالب علم کے دل پر کیا گزرتی ہوگی،وہ کیفیت طالب علم خودہی بہتر بتا سکتا ہے۔مشاہدہ یہی ہے کہ ایسا طالب علم وقتی طور پر سسٹم سے بغاوت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔یہ بھی مشاہدہ ہے کہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے شہری جو برسوں سے کراچی میں مقیم ہیں وہ دو ڈومیسائل بھی بنوا لیتے ہیں یعنی کراچی شہر کا بھی اور اپنے آبائی علاقے کا بھی اور حسب ضروت استعمال کرتے ہیں۔ یہ تمام عوامل اچھی تعلیمی قابلیت والے رکھنے والے شہری طالب علم، جو محض کوٹہ سسٹم کی وجہ سے حکومتی یونیورسٹی یا کالج میں داخلے سے محروم کر دیا گیا ہو، کو مایوسی اور احساس کم تری میں مبتلا کر دیتا ہے-حکومتی یونیورسٹیز، کالجز اور تعلیمی ادارے حکومتی تعاون اور امداد سے ہی طلباء کو تعلیم بہم پہنچا رہے ہیں۔ خاص طور پر یونیورسٹیز کو تو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے باقاعدہ امداد بھی ملتی ہے۔ ہر سال حکومتی یونیورسٹیز ٹیوشن فیس بھی بڑھاتی ہیںکراچی یونیورسٹی کی فیس عرصہ چھ سال میں دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس سے ملتا جلتا حال دیگر حکومتی یونیورسٹیز کا بھی ہوگایونیورسٹیز طلباء کو داخلے سے قبل اپنے ادارے کا کتاب چہ بھی فراہم کرتی ہے داخلے کے خواہش مند ہر طالب علم کو یہ کتابچہ خریدنا لازم ہوتا ہے، چاہے وہ اس تعلیمی ادارے میں داخلہ لے یا نہ لے۔ اس کتابچے کی قیمت ہزاروں میں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مدات میں بھی یونیورسٹیز طلباء سے کسی نہ کسی طرح رقم بٹورتی رہتی ہیں اس سب کے باوجود اعلی پیشہ ورانہ حکومتی یونیورسٹیز طلباء کو کچھ نشستیں سیلف فائنانس اسکیم کے تحت فروخت کرتی ہیں حالانکہ جو والدین لاکھوں روپے ادا کر کے یہ نشستیں خریدتے ہیں، وہ اندرون و بیرون ملک اور نجی تعلیمی اداروں میں بھی اپنے بچے کی تعلیم پر سرمایہ کاری کر سکتے ہیں- اس اسکیم کے تحت بھی کم امتحانی نمبر حاصل کرنے والا طالب علم اپنی من پسند ٹیکنالوجی اور یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، جب کہ اس سے زیادہ امتحانی نمبر حاصل کرنے والا طالب علم سیلف فائنانس اسکیم کے تحت نشست خریدنے والے طالب علم کا منہ تکتا رہ جاتا ہے۔متوستط طبقہ ساری زندگی تعلیم اور روزگار کے حصول میں بتا دیتا ہے- لیکن کوٹہ سسٹم اور سیلف فائنانس اسکیم جیسی قباحتیں مستحق امیدواروں کی امیدوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔کوٹہ سسٹم اور حکومتی تعلیمی اداروں میں سیلف فائنانس اسکیم کی موجودگی میرٹ کا قتل عام ہے میرٹ کے قتل عام کے کیا نتائج ہوتے ہیں؟ اس سے پاکستانی قوم سے زیادہ کون واقف ہوگا۔حکومت وقت کو فوری طور پر پسماندہ اور دیہی علاقوں کی تعلیم و ترقی پر توجہ دینی چاہیئے پسماندہ اور دیہی علاقوں میں بھی وہ تمام تعلیمی و طبی اور شہری سہولتیں مہیا کرنا، حکومت کی ذمے داری ہے جو بڑے شہروں کے لوگوں کو حاصل ہیں تاکہ کوٹہ سسٹم اور سیلف فائنانس اسکیم جیسی اسکیموں کی وجہ سے تعلیم اور روزگار کے حصول میں میرٹ کا جو قتل عام جاری ہے، وہ ختم ہو سکے-

ای پیپر دی نیشن