پاکستان میں طبقہ اشرافیہ، کمزور اور محکوم افراد کو کیڑے مکوڑے ا ور اُن کی تحقیر کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے مگر جب کبھی کوئی عام آدمی اِس نظام زر میں کوئی عہدہ، مقام اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے تو پھر دو ممکنات ہوتے ہیں۔ اگر ایسا شخص اپنی محرومیوں اورکمتریوں پر قابو پا کر اپنی تہذیب نفس کر لے تو وہ پھر اپنے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے مخلوق خدا سے بھلائی کرنے کیلئے کوشاں رہتا ہے۔ تاہم اگر وہ ماضی کی ذلتوں اور محرومیوں کو ا پنا حرز جان بنا لے تو پھر وہ اپنے سے طاقتور اور بااختیار افراد کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے مگر اپنے سے کمزور، مقہور اور غریبوں پر ظلم اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔ احساس کمتری کا مارا اور ذہنی معذوری کا شکار ہر وقت دوسروں کو حقیر سمجھتے ہوئے اُن کیلئے عذاب بنا رہتا ہے۔ اگر وہ طاقتور سیاستدان ہو تو الطاف حسین بن جاتا ہے اگر وہ طاقتور جنگجو لیڈر ہو تو خونخوار قسم کا طالبان لیڈر بن جاتا ہے اور اگر وہ عالمی سطح کا کوئی لیڈر ہو تو ہٹلر، مسولینی بن کر انسانوں کی نسل کشی کواپنا نظریہ بنا لیتا ہے۔ کسی پاکستان جیسے ملک کا حکمران ہو تو سول ملٹری ڈکٹیٹر شپ کے ذریعے سیاسی کارکنوں کو پھانسیاں، جیلیں اور کوڑے مارنا اپنا مقصد حیات بنا لیتا ہے ایسا ایک ڈکٹیٹر تکبر اور جلال میں سرعام ٹی وی پر کہہ دیتا ہے کہ اکبر بگتی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ اُسے گولی کدھر سے ہٹ کریگی۔
اگر جمہوری حکمران ہو تو پھر وہ اپنے مخالفین پر سیف الرحمن جیسے کردار مسلط کر دیتا ہے۔ اگر وہ طاقتور وزیراعلیٰ ہو تو اسکے ایک اشارے پر سرعام افسروں کو ہتھکڑیاں لگا دی جاتی ہیں۔ پولیس اور اینٹی کرپشن کے جھوٹے مقدمے قائم کر دئیے جاتے ہیں۔ چلیں ٹھیک ہے اقتدار کے اس کھیل میں یہ سب کچھ چلتا ہے۔ اقتدار اور طاقت کی نفسیات کے اپنے ا صول و ضوابط ہوتے ہیں۔ مگر پاکستان میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ظالم سے ظالم بااختیار افسر یا حاکم نے قوم کے معماروں کی تذلیل کی ہو مگر اس نئے پاکستان میں ایسا بھی ہو گیا ہے ایساکیوں نہ ہوتا اگر کوئی جسمانی معذوری کے کوٹے پر نیب میں کمپیوٹر اسسٹنٹ بھرتی ہوا ہو اور جعلی یونیورسٹی کی ڈگری کی بنیاد پر نیکی اورپارسائی کے جھوٹے ڈرامے رچا کر اعلیٰ ترین مناصب پر پہنچ گیا تو وہ لازماً ہردم عدم تحفظ کا شکا ہو کر اپنی منفی ایمانداری اور قانون کی پاسداری کا جھوٹا ڈھونگ رچا کر ایسی حرکتیں اس لئے کریگا کہ کہیں اُسکی نااہلی سامنے نہ آ جائے۔
جب آپکی تعلیم و تربیت کسی اچھے خاندان اور ادارے میں نہ ہوئی ہو ا ور آپ اعلیٰ افسران کی خوشامد اور خدمت کے عوض اعلیٰ درجے کا منصب حاصل کر لیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ آپ اساتذہ کی عزت اور تعظیم کریں ۔ میں نے ایسے بہت سے کردار دیکھے ہیں جو سرکاری منصب پر براجمان ہونے پر اپنے دیہاتی باپ کو باپ تسلیم کرنے سے منکر ہو جاتے ہیں۔ اپنے بیوی بچوں کوچھوڑ دیتے ہیں۔ دوستوں اور بہن بھائیوں کے سامنے مغرور بن کر پھرتے رہتے ہیںمگر یاد رکھیں اللہ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہوتی ہے۔ مکافات عمل اس دنیا میں ضرور ہوتاہے۔ ضروری نہیں کہ کسی کوکوئی عدالت ہی سزا دے قدرت کے اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ گورنر کالا باغ سے کون طاقتور ہو گا مگر پھر وہ اپنے ہی بیٹوںکے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ آج پرویز مشرف اور آصف علی زرداری دونوں کو طاقتورانسان ہونے کے باوجود صحت کے ایسے مسائل ہیںکہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ان سے کمزور اور لاچار کوئی دوسرا انسان ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمارے ملک میں کیسے کسیے نیب کے چیئرمین آئے ہیں کہ جس مجرم کو پکڑا بعد میں اُسی کے ملازم بن گئے۔ ایک سابق چیئرمین جو جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے وہ ایل پی جی کے سیٹھ کے ملازم بن گئے اور دوسرے ایڈمرل صاحب جن سے میری یاداللہ تھی اور جب میں نے انہیں اسلام آباد میں اپنا دفتر دیا تو موصوف میرے کالج اور دفتر کے فرنیچر دونوں پر قابض ہوگئے۔وہ فخریہ بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے پاکستان کی فورسز پر قائم ہائوسنگ سکیم شروع کروائی تھی۔ پھر اسی ہائوسنگ سکیم کے ٹائوٹوں نے انہیں نیب کا چیئرمین بنوایا مگر انہوںنے آتے ہی بنگالیوں کیلئے الاٹ متروکہ وقف املاک F6 میں 4 کنال زمین اپنے نام الاٹ کروائی۔ میرے ممدوح جنرل شاہد عزیز کو بطورنیب چیئرمین کام ہی نہیں کرنے دیا گیا۔
نیب میں چیئرمینوں کی خوشنودی سے جس تیزی سے 20 اور 21 سکیل تک ترقیاں ہوتی ہیں‘ ایسی ترقیاں تو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز میں بھی نہیں ہوتی ہیں۔ کیا کسی بھی دوسری سروس میں سٹینو ٹائپسٹ، ڈی جی کے عہدے پر پہنچ سکتا ہے۔ ان افسران کو ریٹائرمنٹ پر دو دو لاکھ‘ پنشنوں اور مراعات میں فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ آپ سوچ نہیں سکتے کہ نیب کے بعض افسران اور ریٹائر افراد کسی قدر امیر ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ شاید ان کے علاوہ ہر دوسرا شخص کرپٹ ہے اور پلی بارگیننگ اور رشوت کے طورپر انہیں ان کا حصہ دے گا مگر ڈاکٹر اکرم چودھری‘ ڈاکٹر مجاہد کامران اور انکے ساتھیوں کو کوئی کرپٹ اور گناہ گار کہے تو پھر کہوں گا کہ اس ملک میں ہر شخص بے ایمان اور کرپٹ ہے۔ اگر وہ اپنے اپنے گریبان میں جھانکے‘ ڈاکٹر مجاہد کامران سے پہلے 40 سال کی نوکریوں کا پتہ کروا لیں‘ اگر ایک بھی میرٹ پر ہو تو مجھے سزا دیں۔ وہاں چالیس سال تک ناظم کی پرچیوں پر نوکریاں ملتی تھیں۔ ٹھیک ہے مجاہد کامران نے نوکریاں دیں کیا وہ افراد کوالیفائی نہیں کرتے تھے۔ جب حکومتی سیاستدانوں اور بیورو کریٹس یونیورسٹی کو فنڈز نہیں جاری کریںگے تو پھر کسی نہ کسی کو تو نوکری دینا ہوگی۔ تاہم جس نے بھی نوکری کی وہ نیب افسران اور حتیٰ کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے زیادہ تعلیم یافتہ تھا۔
اگر نیب چیئرمین قمرالزمان کی مہربانی سے لوئر گریڈ افراد اعلیٰ افسر بن سکتے ہیں‘ ٹیبل ٹینس کی کھلاڑی اور ایک ایف اے پاس میڈیا پرسن ڈائریکٹر کے عہدے پر پہنچ سکتا ہے تو کیا ایک وائس چانسلر کے پاس کوئی صوابدیدی اختیار نہیں ہے کہ کسی کونوکری دے دے۔ انہوں نے یونیورسٹی میں مجید نظامی صاحب کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا تھا۔ لوگوں کو چائے پلائی تھی۔ معلوم کیا کہ اس تقریب کے انٹرٹیمنٹ الائونس کی منظوری بھی انہیں سنڈیکیٹ سے لینا تھی۔ یونیوسٹی میںدائیں بائیں بازو میں اساتذہ کی تقسیم کی وجہ سے آج یہ اساتذہ ٹرائل بھگت رہے ہیں۔
میں مجاہد کامران صاحب کی حمایت نہیں کر رہا‘ انہوں نے تو بی کام پرائیویٹ کرکے ہمارے کامرس کالجز کا بھٹہ بٹھا دیا مگر وہ سید شبیر حسین شاہ کے بیٹے ہیں۔اس خاندان نے پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ جس درجے کے سائنسدان ہیں‘ پوری دنیا اس کو مانتی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر اکرم چودھری نے سرگودھا یونیورسٹی کو پنجاب یونیورسٹی کے مقابل لاکھڑا کیا۔ وہ قرآن کے بڑے مفسر ہیں۔ ان کے لائف سٹائل کو دیکھ کر آپ یہ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں کہ انہوں نے کبھی حرام کاایک پیسہ بھی کھایا ہو مگر سلیم شہزاد کو اپنے علاوہ سب بے ایمان دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ہمارے پروفیسر سائنسدان دوست جو انتہائی مذہبی اور تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے تھے‘ حکومت پنجاب کے صاف پانی پراجیکٹ میں شامل ہوئے اور نیب کی چھ ماہ حراست میں رہنے کے بعد ہائیکورٹ سے رہا ہوئے ہیں۔ اگر پاکستان میں ہر کام طاقت کے قانون کے تحت چلنا ہے اور عدل و انصاف کی بجائے یہ دیکھنا ہے کہ کس کمزور کے گلے میں رسی یا پھندا فٹ آتاہے تو پھر معاملات مشکل ہو جائیں گے …؎
ہے اہل دل کیلئے یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد