پرویز مشرف ٹرائل لاحاصل کیسے؟؟؟

وقت آ گیا ہے‘ پاکستان کا آئینی قتل کرنے والوں اور ملک کی اقتصادیات لوٹ کر اسے کنگال کرنے کا مرتکب بننے والے عناصر کی ترجیحات مقرر کی جائیں اور فیصلہ کیا جائے کہ کس کا جرم سنگین تر ہے اور کسے سب سے پہلے سزا دی جانی چاہئے‘ جناب چیف جسٹس آف پاکستان فرماتے ہیں قبروں سے باہر نکال کر مجرموں کا ٹرائل ہونا چاہئے تو وہ بالکل درست کہتے ہیں‘ ہونا چاہئے‘ لیکن پاکستان کے معاشی دیوالیہ پن کا موجب بننے والے مجرموں سے بھی پہلے ملک کے آئین کو فرد واحد کی حیثیت سے توڑنے والوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دینا بہت ضروری ہے۔ اس ضمن میں سکندر مرزا سے لے کر ایوب خان‘ یحیٰی خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف سب کی لام بندی ہونی چاہئے اور طے کر دینا چاہئے کہ اس ملک کو موجودہ صورت حالات تک پہنچانے کے اسباب کیا ہیں؟ کس کس نے ملک کا آئینی استحصال کر کے اسے معاشی لٹیروں کے حوالے کیا‘ لیکن یہاں تو عدلیہ کی تاریخ بھی یہ ہے کہ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت پر مبنی پہلے فیصلے سے لے کر نواز شریف کے آئینی کیس تک ایک ہی طرح کا عدالتی رویہ قوم کے سامنے آتا رہا۔ ہاں! پہلی مرتبہ پرویز مشرف کے غداری کیس پر سپریم کورٹ نے راست ایکشن لیا ہے اور اس کا اعزاز جسٹس ثاقب نثار کو حاصل ہے۔ بار بار عدالتی حکم پر جب پرویز مشرف اپنے مقدمے کا سامنا کرنے کے لئے پیش نہیں ہوئے تو عدالت نے ان کا بیان لینے کے مختلف طریقے وضع کئے۔ اب موجودہ صورت حالات یہ ہے کہ ویڈیو لنک پر 342 کے بیان سے انکار کے بعد خصوصی عدالت نے جوڈیشل کمیشن بنا کر ان کا بیان لینے کی تجویز دی ہے۔ دوسری جانب پرویز مشرف نے اپنی نام نہاد بیماری کو آڑ بنا کر ایک ’’نہ‘‘ کی تکرار اپنائی ہوئی ہے۔ اس پر پورے ملک کے قانونی ماہرین اور محب وطن پاکستانیوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کی ’’نہ‘‘ کا تکرار جاری رہے گا اور وہ کبھی اپنے مقدمہ غداری کا سامنا کرنے کے لئے واپس نہیں آئیں گے‘ نہ ہی انہیں واپس لانے کا کوئی عدالتی یا حکومتی حربہ کامیاب ہو گا‘ لہذا ان کو واپس لا کر عدالت کے روبرو پیش کرنا ایک کار لاحاصل ہے‘ اس سے عدالت اور عوام الناس دونوں کا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ گویا ان دردمند پاکستانیوں کا کہنا ہے ’’این خیال است و محال است و جنوں‘‘ اور بس۔ دوسری جانب آئی ایس پی آر کے ڈی جی نے لندن پریس کانفرنس میں کہا کہ فوج کا پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات سے کوئی تعلق نہیں۔ آئینی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے اگر پرویز مشرف عدالت کے روبرو حاضر ہو کر بیان ریکارڈ بھی کرا دیں تو ایک پورا پنڈورا باکس کھل جائے گا‘ جس میں ان کے قریبی ساتھیوں کے نام سرفہرست ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالت کو پرویز مشرف کا بیان لینے سے پہلے فواد چودھری‘ دانیال عزیز اور مشاہد حسین سے لیکر چودھری پرویز الہیٰ تک کے بیانات لینے چاہییں‘ بالخصوص چودھری پرویز الہیٰ سے یہ ضرور پوچھنا چاہئے انہوں نے اس وقت یہ بیان کس تناظر میں دیا کہ ہم پرویز مشرف کو فوجی وردی میں آئندہ دس مرتبہ بھی صدر منتخب کریں گے۔ اس ضمن میں بعض محب وطن پاکستانیوں کا یہاں تک قیاس ہے کہ موجودہ حکومت میں براجمان چہروں پر نیا ماسک لگا کر اقتدار کے مزے لوٹنے والے پرویز مشرف کے پرانے ساتھی اور موجودہ وزراء دل سے نہیں چاہتے کہ وہ وطن واپس آ کر عدالت کے روبرو کوئی سنسنی خیز بیان ریکارڈ کروائیں‘ جس میں پردہ نشینوں کی حیثیت سے ان کے نام بھی در آئیں۔ باوثوق ذرائع کا یہ کہنا بھی صائب لگتا ہے کہ مشرف کے پرانے ساتھی اسی خوفناکی کے تحت ’’جل تو جلال تو‘‘ کا ورد کر رہے ہیں۔
کچھ بھی ہو‘ عوام الناس میں پھیلی ہوئی ایک بات سچی اور مبنی برحقیقت بات یہ ہے کہ اگر پرویز مشرف اس ملک کی کسی یونیورسٹی کا پروفیسر ہوتا تو اسے ہتھکڑیاں لگا کر کبھی کا بے توقیری کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش کیا جا چکا ہوتا‘ اگر وہ سیاستدان ہوتا تو اسے نیب کے ذریعے ایسی غیر انسانی تفتیش سے گزرنا پڑتا‘ جوانسانی حقوق سے سراسر متصادم ہے‘ لیکن پرویز مشرف کے نام کے ساتھ جو لاحقہ لگا ہوا ہے‘ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے وہ کسی کے قابو آنے والا نہیں۔ پھر خود بھی اس کا کہنا ہے میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں‘ اور منطقی سی بات ہے کہ جو کسی سے ڈرتا ورتا نہ ہو‘ اس کے اندر کوئی نہ کوئی ’’پوٹینشل‘‘ تو ضرور ہوتا ہے اور اب پوری قوم کو ہی نہیں‘ ساری دنیا کو معلوم ہو چکا ہے‘ اس کے پلے کون سا ’’پوٹینشل‘‘ ہے۔ یاد کیجئے عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران جو ایک جملہ کہا تھا آج وہ ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن پر نقش ہے‘ انہوں نے کہا تھا اس ملک میں چھوٹے اور بڑے‘ غریب اور امیر کے لئے علیحدہ علیحدہ قانون اور انصاف کی سیڑھیاں ہیں۔ انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس تفاوت کو دور کریں گے۔ ملک میں ایک قانون اور ایک ہی انصاف کا میزانیہ ہو گا‘ اس وقت بھی تضادات اور فکر و خیال کی دوئی کی دھول اڑانے والے ارباب اقتدار کا کہنا یہی ہے کہ قانون اور انصاف سب کے لئے ایک ہونا چاہئے‘ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ زمین پر کھلی حقیقت کی طرح نظر کیوں نہیں آتا؟ شاید آنے والی نسلوں کے لئے یہ سہانے خواب محفوظ کر لئے گئے ہیں۔
روشنی زندگی سے دور ہو جائے تو تاریکیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اب تک عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے دعویدار حکمران یہی راگ الاپ رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے ضمنی انتخاب میں ناکام رہنے والے ایک امیدوار ہمایوں اختر نے کہا مہنگائی نے ہی ہمیں ناکامی کا منہ دکھایا‘ میں نے عمران خان سے کہا تھا گیس کی قیمتیں فی الفور نہ بڑھائیں۔ یہ ہے وہ اصل حقیقت جس سے ارباب اقتدار سرمنہ الحراف کے مرتکب ہو ہے ہیں۔ یوں بھی ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ یہی رہا ہے جن سے ووٹ لے کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھو‘ سب سے پہلے انہی کا گلا کاٹ دو تاکہ نہ رہے بانس‘ نہ بجے بانسری۔ غریب کو ختم کر دینے سے بھی غربت ختم ہو جاتی ہے‘ لہذا حکمرانوں نے بہت پرانا یہ سبق پڑھ رکھا ہے‘ وہ کاررواں کے دل سے احساس زیاں ختم کرنے کا طریقہ جانتے ہیں۔ آہ! چشم فلک نے یہ بھی دیکھا تھا جب ذوالفقار علی بھٹو غریب کا ذکر کرتے تھے تو راستہ چلتے ہوئے مفلوک الحال فقیر اور گداگر بھی مستقبل کے سہانے خواب دیکھنے لگتے تھے‘ کہاں گئے ذوالفقار علی بھٹو‘ لیاقت علی خان‘ چودھری محمد علی اور خواجہ ناظم الدین ایسے سیاستدان جو غریبوں کا دم بھرتے اور پھر اپنی سیاسی جدوجہد سے اس کا عملی ثبوت بھی پیش کیا کرتے تھے۔ یہاں تو غریبوں کا نام جپنے والے ان کے منہ سے نوالہ چھین کر ترقی و کامرانی کی نوید سنا رہے ہیں اور پھر اس پر دلچسپ امر یہ کہ غم نہ کرو یہ کڑا وقت گزر جائے گا‘ پھر پاکستان کا ہر غریب شخص خوشحال ہو گا۔ واہ! سبحان اللہ۔ کہاں گئے وہ لوٹی ہوئی دولت کو باہر سے واپس لانے کے دعوے؟ اور کہاں گیا وہ دعویٰ کہ سب لٹیروں اور ڈاکوؤں کو بیرون ممالک سے واپس لائیں گے۔ حقیقت بہت تلخ ہوتی ہے‘ ایک اسحاق ڈار تک تو ابھی تک آپ کے قابو نہیں آیا۔ ایوان اقتدار کے باہر تیرہ شبوں میں خواب دیکھنے والے جب حکمران بنتے ہیں تو ان کے سامنے ایک نیا منظر نامہ ہوتا ہے جو مبنی برحقیقت اور سچا کہلاتا ہے۔ یہی منظرنامہ اس وقت عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے روبرو ہے۔ ان کے لئے ایک ہی مشورہ ہے اگر امانتدار اور دیانتدار ہو تو اس ملک کے غریب کو غربت اور افلاس کے ہاتھوں مرنے سے بچا لو‘ ورنہ انہیں آفات سے بچانے والا رب تمہیں نہیں بچائے گا‘ اسی حقیقت کو مکافات عمل کہتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن