بھارت مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ختم، کشمیریوں کے استصواب رائے کا حق دے: شاہ محمود

Oct 18, 2019

 اسلام آباد (این این آئی+سٹا ف رپورٹر)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان مسئلہ کا فوجی حل نہیں ،طالبان امریکہ کے ساتھ بات چیت کی بحالی کے لئے کام کریں اور بین الافغان بات چیت کا آغاز کیاجائے،پاکستان افغانستان کے مسئلہ کے حل کے لئے ہونے والی تمام کوششوں کی حمایت کے لئے پرعزم ہے،  مشرق میں ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات میں مشکل صورتحال کا سامنا ہے جس سے ہم آگاہ ہیں۔   وزیرخارجہ نے ایئر یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میرے لئے یہ بہت ہی عزت کا مقام ہے کہ آج اس معزز فورم پر ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی‘‘ کے بارے میں اظہار خیال کروں۔  انہوںنے کہاکہ ہم’ ہوبیسین ورلڈ‘ میں رہتے ہیں۔ ایسی دنیا جو طوائف الملوکی، تغیر اورسیاسی وتزویراتی عوامل کے دباو میں رہتی ہے۔ یک طرفہ اقدامات، قوم پرستی، اجنبیوں یا مہاجرین سے بیزاری اور عوام کی ملکیت کے اصول تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور غیریقینی پیدا کررہے ہیں۔ یہ منظر دنیا نے دہائیوں میں نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی معیشت کا مرکز و محور مغرب سے مشرق کی طرف تبدیل ہو رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں مشکل صورتحال کا سامنا ہے جس سے ہم آگاہ ہیں۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے اپنے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں اپنے غیرقانونی اور غیراخلاقی قبضہ کو مستحکم بنانے کے لئے یک طرفہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں و عالمی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقدامات اٹھائے ہیں۔ بھارتی ارادہ ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیرکی عالمی سطح پر مسلمہ متنازعہ حیثیت ،اس کی آبادی کا تناسب اور شناخت تبدیل کردے۔ انہوںنے کہاکہ 70 دن سے 80 لاکھ لوگوں کا غیرانسانی لاک ڈائون جاری ہے،کشمیری عوام بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں ناقابل بیان مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوںنے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک مضبوط کیس پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر سے فوری کرفیواٹھایا جائے اور کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ استصواب رائے کے جائز و منصفانہ حق کے حصول کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔انہوںنے کہاکہ بھارت اپنی مایوسی اور جھنجھلاہٹ میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں صورتحال کو ’’معمول‘‘ کے مطابق دکھانے کی کوشش کررہا ہے لیکن اس کی اس کوشش کو دیگر ذرائع سے آنے والی اطلاعات، پرتشدد حراستوں اوربین الاقوامی میڈیا کی طرف سے جاری کردہ رپورٹس نے بے نقاب کردیا ہے۔ یہ اس امر کو عیاں کرتا ہے کہ کس طرح بھارت اپنے مزموم عزائم سے دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے متبادل حقیقت دکھا نے اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایسا ہی ایک جھوٹ مقبوضہ جموں وکشمیر میں موبائل فون کی بحالی کی صورت بولا گیا۔ انہوںنے کہاکہ ہم کشمیریوں کے استصواب رائے کے جائز ومنصفانہ حق کے حصول کی جدوجہد میں ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ پاکستان اور کشمیری تمام حکومتوں، عالمی اور علاقائی انسانی حقوق کی تنظیموں ، سول سوسائیٹی کے ارکان اور عالمی میڈیا کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بھارت کے غیرقانونی اور یک اقدامات کے خلاف آواز بلند کی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کی حمایت کی۔ انہوںنے کہاکہ بھارت اپنی جوہری اور روایتی فوجی طاقت میں بے پناہ اورمسلسل اضافہ کررہا ہے اور عدم استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کررہا ہے، ان اقدامات میں بحر ہند کو جوہری بنانا ، اینٹی بیلسٹک میزائلوں کی تنصیب ، خلاء میں سیٹلائٹ کو نشانہ بنانے کاتجربہ اوراس کے نتیجے میں خلاء میں پیدا ہونے والا کچرہ، اورہرقسم کے جوہری ہتھیار لیجانے کی صلاحیت میں اضافہ شامل ہے۔ انہوںنے کہاکہ جز وقتی انتخابی وسیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بھارت شدید جنگی جنون میں مبتلا ہوکر جوہری دھمکیاں دیتا چلا آ رہا ہے۔ اس نے اعلانیہ جوہری بیان کردہ پوزیشن تبدیل کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان امن اور سٹرٹیجک استحکام کا خواہاں ہے تاکہ سماجی واقتصادی ترقی کے ایجنڈے پر توجہ مرکوز کی جاسکے۔ ہمارا طرز عمل تحمل اور ذمہ داری اور اسلحہ کی دوڑ سے بچنے کا ہے۔ تاہم پاکستان سکیورٹی مضمرات سے صرف نظر نہیں کرسکتا جو اس کے ہمسائے کی طرف سے ہورہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان میں کشیدگی اور جنگ کے پاکستان اور اس کے معاشرے پر فوری اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان طویل عرصے سے کہتا آیا ہے کہ افغان تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ ہمارا یہ موقف آج پوری دنیا میں تسلیم ہو رہا ہے ، سیاسی تصفیہ کے لئے تمام فریقین کے اتفاق سے معاہدے کا ہونا اس امر کا ثبوت ہے۔ پاکستان افغانستان میں امن ومفاہمت کا مکمل حامی ہے کہ افغان اپنی قیادت میں خودکو قابل قبول اپنے طے کردہ حل کے ذریعے معاملہ کو سلجھائیں۔ ہم نے دوحہ اور ابوظہبی میں افغان امن بات چیت کے تمام ادوار کی مکمل حمایت کی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ امریکہ اور طالبان میں بات چیت دوبارہ بحال ہوگی اور افغان طبقات میں بات چیت آگے بڑھانے کا زریعہ بنے گی۔ انہوںنے کہاکہ چین، افغانستان اور پاکستان نے سات ستمبر کو سہ ملکی وزراء خارجہ اجلاس منعقد کیا۔ ہم نے معاہدہ پر پہنچنے کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ افغانستان میں ترقی اور روابط کے لئے تمام امور میں گہرا تعاون استوار ہوگا۔انہوںنے کہاکہ سینئر طالبان کا وفد حال ہی میں پاکستان آیا اور ہم نے ان پر زوردیا کہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کی بحالی کے لئے کام کریں اور بین الافغان بات چیت کا آغاز کیاجائے۔ ان کے جواب سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ انہوںنے کہاکہ خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے مسئلہ کے حل کے لئے ہونے والی تمام کوششوں کی حمایت کے لئے پرعزم ہے۔ہم ایسا افغانستان چاہتے ہیں جو نہ صرف داخلی طورپر امن کی نعمت سے مالا مال ہو بلکہ اس کے ہمسائے بھی امن کی یہ ٹھنڈی ہوا حاصل کرسکیں۔ ہم افغانستان میں امن ومفاہمتی عمل کی حمایت جاری رکھیں گے ، ہم ترقی میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہیں گے تاکہ پاکستان میں مقیم تیس لاکھ سے زائد افغان باشندوں کی عزت ووقار کے ساتھ اپنے گھروں کو واپسی ممکن ہوسکے۔ انہوںنے کہاکہ چین ہمارا قریبی دوست اور ہمیشہ کا بااعتماد شراکت دار ہے۔ پاکستان اور چین کی سدابہار سٹرٹیجک شراکت داری خطے میں امن اور استحکام کی ایک ٹھوس وجہ ہے۔ہم  سی پیک منصوبہ جات پر عملدرآمد کیلئے پرعزم ہیں۔ پاکستان، امریکہ کے ساتھ طویل المدتی اور پائیدار شراکت داری چاہتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان دو مرتبہ امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کرچکے ہیں اور اعلی سطحی رابطے ہوئے ہیں۔ اس سطح کے رابطے اور سرگرمیاں اس سے قبل حالیہ برسوں میں، میں نہیں دیکھے گئے تھے۔ سلامتی سے لے کر تجارت تک ، سرمایہ کاری، توانائی، عوامی سطح پر روابط تک وسیع ایجنڈے پر بات چیت ہوئی اور مختلف شعبہ جات میں باہمی مفاد میں مل کر کام کرنے کا کہاگیا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم ان تعلقات کو اصولوں ، باہمی احترام وباہمی مفاد میں آگے لے کر بڑھیں۔ہمیں امید ہے کہ امریکہ اور پاکستان تعمیری انداز میں کام جاری رکھیں گے۔ خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی ہمارے مشترکہ اہداف ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں اس مقصد کے لئے عظیم انسانی اور مالی نقصانات جھیلے ہیں۔ نتیجے کے طورپر معاشی ترقی کے امکانات اور شرح نمو بڑھانے میں گراں قدرمدد ملی ہے۔معاشی ترقی کے عمل اور امن، استحکام اور خطے وعالمی خوشحالی کے لئے یورپ کے ساتھ ہمارے تعلقات نہایت اہم ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں یہ بھی آپ کے گوش گزار کرتا چلوں کہ مجھے شہزادہ ولیم اور شہزادی کو پاکستان آمد پر خیرمقدم کرنے کا موقع ملا۔ شاہی جوڑا پانچ دن کے دورے پر پاکستان آیا ہے اور پاکستان کے خوبصورت مقامات اور دیگر رنگوں کو دیکھ رہا ہے۔ اس طاقتور آئینے سے ہمیں امید ہے کہ دنیا پاکستان کے خوبصورت مقامات، ثقافتی رنگ اور لسانی تنوع دیکھنے کے لئے متوجہ ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کے لئے مشرق وسطی نہایت اہم سٹرٹیجک، معاشی، سلامتی اور ثقافتی شراکت دار ہے۔ ہمارے تہذیبی چشمے اور اقداروروایات کے رشتے اس کے علاوہ ہیں۔ ہمارے اسلامی ممالک سے نہایت دیرینہ اور قریبی تعلقات استوار ہیں۔ خطے کے تمام ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مضبوط بنیادوں پر فروغ پارہے ہیں۔ انہوں نے کہا وزیراعظم عمران خان نے ایران اور سعودی عرب کا دورہ کیا تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے اور خطے میں امن و استحکام کو فروغ مل سکے۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ابتدائی مشاورت سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور کشیدگی میں پہلے ہی کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ ہمیں امید ہے تنازعات اور اختلافات کو سیاسی و سفارتی ذرائع سے حل کرنے کیلئے آمادگی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ میں اختتام میں یہ پھر کہنا چاہوں گا کہ پاکستان خارجہ پالیسی اہداف کے حصول کیلئے کلیدی کردار ادا  کر رہا ہے۔ خطے او ردنیا میں امن و استحکام کیلئے سرگرم عمل ہے۔

مزیدخبریں