پاکستان میں گزشتہ چند روز میں بیس ملین ڈالربیرون ملک پاکستانیوں نے بھیجے اورانقلابی بات یہ ہے کہ یہ رقم اکیس ہزار سے زائد نئے اکائونٹس کھول کر پاکستان بھیجی گئی ہے، یعنی اسٹیٹ بینک کی متعارف کردہ سہولت روشنی۔ڈیجیٹل۔اکائونٹ پربیرون ملک پاکستانیوں نے اعتماد کا اظہار کیا، آن لائن اکائونٹس کھولے اور رقوم بھیجیں، رقوم بھیجنے کی بڑی وجوہات میں پاکستان میں جاری ہائوسنگ کے شعبے میں انقلابی اصلاحات بھی ہیں، کوئی بھی پیسہ لگائیں کہیں کابھی پیسہ ہو، کالا ہو یا پیلا ہو حکومت نہیںپوچھے گی، تعمیراتی شعبے میں فکسڈ ٹیکسیشن کا نفاذ کردیاگیا، جس کی وجہ سے اس شعبے میں بوم آیا ہوا ہے، ہرطرف نئے نئے پروجیکٹس بنائے جارہے ہیں، سیمنٹ اور سریے کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوگیاہے، بلاک اور اینٹوں کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی آئی ہوئی ہے، ساتھ ہی گزشتہ چھ ماہ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر تیزی سے نیچے آناشروع ہوگیاہے، یہ سب کچھ بتانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کارخ پہلے سے بہترہوا ہے، ٹیکنالوجی اور جدید طرز بینکنگ سے مدد لی گئی تو حوالہ ہنڈی جیسی بیماری سے نجات کا راستہ نکل رہاہے، پاکستان میں ساڑے پانچ کروڑ بینک اکاونٹس تھے جن میں ڈھائی کروڑ بینک اکائونٹس بے نامی تھے، مطلب یہ کہ جعلی بنک اکائونٹس تھے، اس ملک میں ہویہ رہاتھاکہ کروڑوں اربوں روپے کے کمیشن رشوتیں جعلی بے نامی اکائونٹس میں ڈال دی جاتی تھیں اور کاروباری حضرات بھی ایسے اکائونٹس رکھتے تھے اور خوب ٹیکس چوری کرتے تھے، جب چاہیں پیسہ باہر بھیج دیں اور پھر باہر سے یہی پیسہ واپس منگواکر لیگل بنا لیں، ساتھ ہی باہر جائیدادیں بناتے رہیں اپنے بیوی بچے پالتے رہیں اور ملک کے خزانے کو چوستے رہیں، موجودہ حکومت نے شدید مخالفت کی باوجود بینک اکائونٹس کو جدید تقاضوں کے مطابق کر دیا سارے بینک اکائونٹس بایومیٹرک کردیئے گئے، جعلی بے نامی ڈھائی کروڑ اکائونٹس کا خاتمہ کر دیا گیا اور چور ڈاکو پکڑے گئے اور ابھی بہت سارے چور ڈاکو اور ان کے سہولت کاروں کی باری آناباقی ہے۔آج کا پاکستان کل کے پاکستان سے بہترہونے جارہاہے، شفافیت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، کرپشن کے خاتمے کی طرف قدم رکھے جارہے ہیں، ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ کیا جارہا ہے، بڑے ڈاکے پکڑے جا رہے ہیں، ساتھ ہی چھوٹی بڑی چوریاں بھی گرفت میں آناشروع ہورہی ہیں، اربوں روپے کے موبائل اسمگل ہونا، استعمال شدہ گاڑیوں کا کاروبار، سونے اور الیکٹرانکس کی اسمگلنگ، اس طرح سسٹم کا حصہ بنی ہوئی تھیں کہ سب کو یہی یقین تھا کہ کبھی بھی یہ نظام تبدیل نہیں ہوسکتا، اس کی اصل وجہ چالیس سال سے جوپارٹیاں اقتدار میں رہیں ان کا اس نظام کو چلانا اور مال بناناتھا، وہ ہی حوالہ ہنڈی، بے نامی اکاوئنٹس اورجعلی اکائونٹس کے ذریعے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کررہی تھیں، آپ نے ضرور دیکھا ہوگا ریکارڈ کاجل جانا، سرکاری دفاتر میں آگ کا لگ جانا معمول کی بات تھی اور کمپیوٹرائزیشن کی جانب توجہ کا مطلب ہمیشہ قومی راز فاش کرنا قرار دیا جاتا تھا، ٹیکس چوری کے ایسے ایسے نظام بنائے گئے کہ سارا سسٹم ہی اس میں شامل رہا اور اب بھی ہے لیکن شفافیت اب ٹیکنالوجی کے ذریعے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے زیادہ وقت نہیں لگے گالیکن دشواریاں ابھی بہت ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ شفافیت میں سب سے بڑی رکاوٹ افسر شاہی ہے، جو خود بھی مال بناتی رہی ہے اور حکمرانوں کو بھی راستے دکھادکھا کر مال بٹورتی رہی ہے، یہ سیاسی افسر شاہی ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی مخالف ہے، زیادہ تر افسران وقت گزار کر سینئر ہوجاتے ہیں اور حکومتوں کی حلق کی ہڈی بننے رہتے ہیں، مقتدر حلقوں کی رپورٹس بھی افسران کے بارے میں سامنے لائی گئیں ہیں، مطلب یہ بیوروکریسی کی باری آ چکی ہے معمول کا کمیشن اور ٹال مٹول کے معاملات نشانے پرہیں، ٹیکنالوجی کو بھرپور استعمال کرنے کی منصوبہ بندی جاری ہے، وزیراعظم کا سٹیزن پورٹل عوام کو راستہ مہیاکررہے کہ کہ اپنے مسائل بغیررشوت دیئے حل کروائیں۔ ابھی آسانیاں نہیں ہیں ابھی بہت گھبیرصورتحال ہے اپوزیشن کااحتجاج ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی کے بالکل بعد شروع ہواہے نوازشریف کی خاموشی ایسے ٹوٹی جس کا کسی کو اندازہ نہیں تھاان کی بیماری بھی ان سے اچانک دور بھاگ چکی ہے، مولانا فضل الرحمان فرنٹ پر ہیں اورپیچھے آصف زرداری سمیت سارے وہ رہنما جن کے خلاف یا تو نیب ریفرنسز ہیں یا انکوائریاں جاری ہیں، اشتہاری ہونے والوں کی کی فہرست لمبی ہونے والی ہے، گرفتاریاں بھی ہونگی، نئی احتساب عدالت بھی بننے جارہی ہیں، چیف جسٹس تیز احتساب عدالتوں کی حق میں ہیں اور جیسے ہی پرانے ریفرنسز سامنے آئیں گے پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں دوریاں بڑھ جائیں گی کیونکہ دونوں پارٹیوں نے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کیخلاف بدعنوانی کے مقدمات درج کروائے ہوئے ہیں، یعنی اپوزیشن کا یہ سنڈے بازار زیادہ پائیدار ثابت ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، اپوزیشن صرف ایک پوائنٹ پر حکومت کو بیک فٹ پر کرسکتی ہے وہ ہے مہنگائی اور اگر حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کیلئے مربوط حکمت عملی بنا لی تو اپوزیشن کے پاس اور کچھ نہیں رہے گا سوائے نیب کے خطوط وصول کرنے کے۔
ایساکیا ہونیوالاہے
Oct 18, 2020