میں نے1965میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال کالج راولپنڈی میں قدم رکھا تو اس وقت جنرل ایوب خان جنہوں نے اپنے سر پر ’’فیلڈ مارشل ‘‘ کا تاج سجا لیا تھا کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔ زمانہ طالبعلمی میں سیاسی شعور نے آنکھ کھول لی دائیں اور بائیں بازو کی سیاست سے آگاہی حاصل ہو گئی۔ جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں عملاً حصہ لیا لیکن اس بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا اور صحافت جوائن کر لی اور اب اس دشت میں صحرا نوردی میں نصف صدی ہو گئی ہے۔ جنرل ایوب خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو ایک ایک کر کے ٹھکانے لگا دیا تھا کسی کو ’’ایبڈو ‘‘ کے تحت سیاست میں ’’بارہ پتھر‘‘(ممنوع ) کر دیا کسی کو اپنی جماعت میں شامل کرکے بڑے بڑے عہدے دے دئیے۔ عملاً کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ ایوب خان کے خلاف ایسی تحریک چلے گی جو نہ صرف ان کے اقتدار کا خاتمہ کر دے بلکہ ملک میں نیا مارشل لا لگ جائیگا اور پاکستان دو لخت ہو جائیگا ۔ پاکستان میں ’’ اتحادوں کی سیاست کے ’’ بادشاہ ‘‘ نوابزادہ نصراللہ خان نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ‘‘ قائم کر دی۔ جنرل ایوب خان نے بھی اپوزیشن کو کمزور سمجھا اور غدار اور نہ جانے کیا کیا القاب دئیے لیکن بالآخر یہ ’’کمزور اور غدار‘‘ اپوزیشن جنرل ایوب خان کے اقتدار کو لے بیٹھی۔ اپنی حکومت کا عشرہ منانے والے حکمران نے اپنے ہی آئین کو منسوخ کر کے ملک میں مارشل لا ء لگا دیا لیکن جنرل ایوب خان جیسے آمرانہ سوچ رکھنے والے حکمران کو اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دینا پڑی حتیٰ کہ تحریک کے نتیجے میں اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار شیخ مجیب الرحمنٰ کو رہا کر کے گول میز کانفرنس میں مدعو کیا جو پاکستان کی فیڈریشن کو ’’کنفیڈریشن ‘‘ میں تبدیل کرنے کا 6نکاتی ایجنڈا لے کر آیا تھا۔ جنرل ایوب خان نے شیخ مجیب الرحمنٰ جیسے لیڈر سے اس لئے ہاتھ ملایا کہ وہ پر امن انتقال اقتدار چاہتے تھے لیکن ایجی ٹیشن ختم نہ ہوا تو 23مارچ1969ء کو مارشل لا لگ گیا۔ اپوزیشن کے ہاتھ تو کچھ نہ آیا عام انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان عملاً عوامی لیگ کے ہاتھ میں چلا گیا۔ سیاسی ڈائیلاگ کی ناکامی نے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا جواز پیدا کیا بالآخر متحدہ پاکستان دو لخت ہو گیا ۔ ماضی میں کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف چلائی جانے والی تحریک نے نفاذ ’’نظام مصطفی‘‘ کی تحریک کی شکل اختیار کرلی اپوزیشن جماعتوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت گرانے کیلئے پاکستان قومی اتحاد (پی این اے ) جس میں 9جماعتیں شامل تھیں اسے 9ستاروں کا اتحاد کہا گیا۔ اس اتحاد کے روح رواں نوابزادہ نصر اللہ خان تھے لیکن انہوں نے ایئرمارشل کو پی این اے کا سربراہ نہیں بننے دیا اور مفتی محمود کو اس کا سربراہ بنا دیا۔پھر پی این اے کی طرف سے مفتی محمود ، نوابزدہ نصر اللہ اور پروفیسر غفور احمد اور حکومت کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو ، مولانا کوثر نیازی اور عبد الحفیظ پیر زادہ نے مذاکرات کئے۔ مذاکرات کی ’’ناکامی‘‘ نے ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا نہ صرف ’’دھڑن‘‘ تختہ کر دیا بلکہ تحریک کے ’’دردناک‘‘ انجام کے بعد قائم ہونے والی ’’ ضیائی ‘‘ مارشل لا حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کی جان لے لی۔ ذوالفقار بھٹو بے پنا ہ خوبیوں مالک سیاست دان تھے لیکن منتقم مزاجی نے نہ صرف ان کے اقتدار کا دورانیہ مختصر کر دیا بلکہ جنرل ضیاالحق نے خان عبدالولی خان کے اس مشورہ کہ ’’قبر ایک ہے اور فرد دو ‘‘ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ خود قبر میں جائیں گے یا اس کو بھجوائیں جو آپ کو قبر تک پہنچا دیگا۔ جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو ’’تختہ دار ‘‘ پر تو لٹکا دیا لیکن 10سال بعد وہ خود بھی عالمی سازشوں کا شکار ہو گئے اور 17اگست 1988ء کو طیارے کے حادثے میں شہید ہو گئے۔ انہوں نے بھی 1973کے آئین کی بحالی کیلئے 8ویں ترمیم قبولیت کی شرط رکھی۔ انہیں بھی اپنے ’’آئین سے ماورا اقدامات کے آئینی تحفظ کیلئے اپوزیشن کے سامنے جھکنا پڑا ۔ ان کی حکومت کے خلاف خاتمے کیلئے موومنٹ آف ریسٹوریشن آف ڈیمو کریسی(ایم آر ڈی ) کا نے طویل جدوجہد کی۔ اس تحریک کی اصل قوت پیپلز پارٹی تھی لیکن اس اتحاد کے روح رواں نوابزادہ نصر اللہ خان تھے ۔ جنرل ضیاالحق کے سیاسی منظر سے ہٹ جانے کے بعد پیپلز پارٹی کی غیر معمولی مقبولیت کا راستہ روکنے کیلئے اس وقت کی ایسٹیبلشمنٹ نے پاکستان جمہوری اتحاد تشکیل دیا جس نے وفاق میں پیپلز پارٹی کو واحد اکثریتی جماعت تو نہیں بننے دیا لیکن پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہو گئی۔ یہیں سے میاں نواز شریف کے اصل سیاسی کیرئیر کا آغاز ہو تا ہے جہاں سے وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اگرچہ انہیں ایسٹیبلشمنٹ کی تائید و حمایت حاصل رہی لیکن تینوں بار بھاری اکثریت سے جیت جانے کے باعث وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے سے انہیں کوئی روک نہ سکا۔ ہر بار ایسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے نتیجے میں ہی انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا ۔ نواز شریف کی حکومت گرانے کے لئے نوابزادہ نصر اللہ خان کی قیادت میں سیاسی اتحاد بنتے رہے پی ڈی اے بنا محترمہ بے نظیر بھٹو نے لانگ مارچ کئے محترمہ بے نظر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان اس حد تک فاصلے تھے کہ جب 12اکتوبر1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت پر شب خون مارا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف کے اقدام کی مذمت نہیں کی ۔ آج صورت حال کچھ اس طرح ہے 63سال بعد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے بننے والے سیاسی اتحاد کی قیادت مولانا فضل الرحمنٰ کے پاس ہے۔ انہیں میاں نواز شریف کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ پی ڈی ایم نے گوجرانوالہ میں تاریخی جلسہ کرکے اپنی ’’سیاسی دھاک‘‘ تو بٹھا دی ہے۔ فی الحال عمران خان کے طرز عمل سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن سے کوئی ڈائیلاگ کرنے کیلئے تیار نہیں لیکن اپوزیشن کے ایجی ٹیشن کے بعد ڈائیلاگ ہی ایک ایسا راستہ ہے جس سے سیاسی بحران کا خاتمہ ہو گا۔ مجھے توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی جنگ ختم کرنے کی خواہش رکھنے والے سیاست دانوں کی کوشش سے کوئی بات طے ہو جائیگی۔ورنہ ہماری سیاسی تحاریک ’’درد ناک ‘‘ انجام سے بھری پڑی ہے ۔