کس کی لگن میں پھرتے ہو

Oct 18, 2020

قاضی عبدالرؤف معینی

گزشتہ دنوں مرشدی پروفیسرصاحبزادہ حسین صاحب لاہور تشریف لائے۔ جناب سعید آسی صاحب کی دعوت پر پاکپتن ہاؤس ( آسی صاحب کا دولت کدہ ) حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔ جناب نے بڑی محبت سے والہانہ استقبال کیا۔ علمی اور ادبی گفتگو کے ساتھ شام کی پرتکلف چائے اور بوقت رخصت اپنی شاہکار تصانیف عنائت فرمائیں۔ یہ ایک یادگار ملاقات تھی۔ ویسے تو ساری کتب کمال ہیں لیکن ان میں سے ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو ‘‘کے عنوان ،جاذب نظر سرورق عمدہ کاغذ اوربہترین پرنٹنگ نے توجہ کو اپنی طرف مبذول کر لیا۔ دوران سفر ہی ورق گردانی کا آغاز ہو گیا۔ جناب آسی صاحب کی مسحور کن شخصیت کی طرح آپ کی تحریرنے بھی سحرطاری کردیا۔ آسی صاحب کا تعلق چونکہ شیخ السلام حضرت بابا فرید الدین مسعود رحمتہ اللہ علیہ کی دھرتی پاکپتن سے ہے اس لیے گفتار کے ساتھ آپ کی تحریر میں بھی شکر کی مٹھاس وافر مقدار میں ملتی ہے۔کافی مصروفیات کے باوجود چند نشستوں میں پورے سفرنامہ کا مطالعہ کر لیا۔ لیکن یہ ایسی تخلیق ہے جسے بار بار پڑھنے کو دل کریگا۔سعید آسی صاحب اردو صحافت کی تاریخ کا پورا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ رپورٹنگ سے لیکر کالم نگاری اور پھر اداریہ نویسی تک چار دہائیوں کا سفرایک قیمتی اثاثہ اور صحافت کے طلبا کیلئے مستقل راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ آپ صحافت کی آزادی کیلئے ابتدا سے ہی متحرک رہے۔ پریس کی آزادی کے ساتھ صحافیوں کے حقوق اور انصاف کیلئے آپ کی جدوجہد قابل تقلید ہے۔سعید آسی صا حب دانشور ، کالم نگار، ادیب ، پنجابی اور اردو کے قادر الکلام شاعراور قانون دان کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔باعث مسرت ہے کہ آپکی ادبی خدمات پر ملک عزیز کی بڑی یونیورسٹیز میں ایم فل کے تھیسزلکھے جا رہے ہیں۔’’کس کی لگن میں پھرتے ہو ‘‘ نے آپ کو سفر نگاروں کی پہلی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ آپ کا یہ سفر نامہ بنیادی طور پر آپ کے غیرملکی اسفارکی داستان ہے جو آپ نے دو سابقہ وزرائے اعظم کے ساتھ سرکاری دورے کے دوران مالدیپ، برونائی اور انڈونیشیا کیلئے کیے اگرچہ یہ سفر نامہ سال 2019 کی آخری دہائی میںشائع ہوا لیکن آج بھی ادبی و فنی خوبیوں کی وجہ سے سدا بہار ہے۔سچی بات یہ ہے کہ میں آج کل سفرنامے نہیں پڑھتا۔ اس کی وجہ ابن بطوطہ ، البیرونی ،شبلی نعمانی ، سر سید احمد خان محمد حسین آزاد اور پھر ابن انشا نے سفر ناموں کا جو معیار قائم کردیا ہے موجودہ دور کے سفر نامے اس پہ پورا نہیں اترتے اور وہ مزا نہیں دیتے۔ ایک عرصہ بعد’’پھرتے ہو کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ نے ذوق کی تسکین کردی۔یہ مختصر کالم سفرنامہ کے تمام محاسن کا احاطہ کرنے کا بالکل متحمل نہیں ہوسکتا۔ انداز بیان سادہ لیکن دلنشیں ، سلاست و روانی ایسی کے واقعات کا تسلسل کہیں ٹوٹتا نظر نہیں آتا،الفاظ کے چناؤ کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ مختصر لیکن جامع معلومات نے تحریرکومنفرد بنا دیا ہے۔ برموقع اور بر محل اشعارکا چناؤ آپکے عمدہ شعری ذوق کی بھرپورعکاسی کرتا ہے۔ منظر کشی ایسی کہ قاری سعید آسی صاحب کے ساتھ ہمسفر محسوس کرتا ہے اور کسی بھی لمحے بوریت کا احساس تک نہیں ہوتا۔عربی زبان وادب کا مقولہ ہے کہ گفتگو میں مزاح ایسے ہی ہے جیسے کھانے میں نمک۔ آسی صا حب نے قاری کے ذوق مزاح کو مد نظر رکھا اور اس کی مقدار کھانے میں نمک کے برابر ہی رکھی۔سعید آسی صاحب نے حرف اوّل میں سفر نامہ کا مقصد واضح کرتے ہوے لکھا کہ ’’کوشش یہی رہی کہ جس دھرتی پر قیام ہے وہاں کی معاشرت، رہن سہن،تہذیب و ثقافت اور طرز حکمرانی کا اپنے وطن عزیز کے ساتھ موازنہ کرکے اچھائی اور برائی کا کھوج لگایا جائے۔ اپنے اسی مشاہدے اور تجسس کو لفظوں کی زبان دیکر اوراق میں سموتے سموتے ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو کی شکل سامنے آگئی ‘‘پورے سفرنامہ میں آپ نے اس مقصد کو مد نظر رکھااور جابجا اصلاحی فرائض بھی انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ جن مقامات کی سیاحی کررہے ہوتے ہیں وہاں اگر انہں کوئی ایسی بات نظر آتی ہے جوان کی نظر میں قابلِ تقلید ہے تو عوام کو اس کی تقلید کرنے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔ قلم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شائع ہونے والاسعید آسی صاحب کا یہ عمدہ سفر نامہ یقیناً صحافت،سیاست ،اور تاریخ کے طلبا کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ خصوصا عالمی سیا ت سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے قیمتی دستاویز کی حیثیت کا حامل ہے۔

مزیدخبریں