5جولائی1977ء کو جنرل ضیاٗالحق نے ذوالفقار ر علی بھٹوکی حکومت کا تختہ الٹ کر ما رشل لاء لگا دیااور اپنی پہلی تقر یر میں انھو ں نے 90 دن کے اندر الیکشن کرا کے حکومت منتخب نمائندوںکے حوالے کرنے کا وعدہ کیامگر چو نکہ ملکی حالات ساز گا ر نہ تھے تو مجبو راً بیچا رے جنرل ضیاء کو نہ چا یتے ہو ئے بھی مز ید نوے دن حکومت کا بار اٹھانا پڑا،حالانکہ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1977کو پھا نسی چڑھا دیامگر اس ملک کے اسقدر بگڑے ہوئے حا لات اتنے قلیل عرصے میں کہا ں سد ھر نے والے تھے، لہذا نوے کا پہا ڑا پڑھتے پڑھتے جنرل ضیاء کو اس ملک کی ابتر صورت حال کو سنبھا لتے سنبھا لتے گیا رہ سال لگ گئے اور ابھی شاید اتنا ہی عرصہ اور در کار تھا مگر اسلام دشمن قو توں نے انہیںمو قع نہ دیااور وہ 17اگست 1988کومحٖض 11سال چیف آ ف آ رمی سٹاف کی وردی میںرہنے کے بعدبہا و لپور کے قر یب طیارے کے ایک حادثے میںخا لق حقیقی سے جا ملے اور ا نکا ادھورا مشن ان کے سیاسی جانشین اور انکے مارشل لا کے گملے میں پروان چڑھے ہوئے مغل شہنشا ہ دوراں نوازشریف کو سنبھالنا پڑا۔جنہوں نے پاکستان کی سیاست میں ـسیاسی ـ گھوڑوں کی خرید و فروخت (Horse Trading) نو ٹو ں بھرے بریف کیسوں کی چمک ،صحافتی لفافوں کی دمک اور :جاگ پنجابی جاگ ،تیری پگ نوں لگ گیا داغ : اور پھر بھا گ پنجابی بھاگ کا نعرہ لگا تے ہوے جنرل ضیاء کے نظریہ ضرورت کے تحت بار بار ملک سے فرار ہونے جیسے کارنامے سر انجام دئییے ۔،مگر اس وقت مجھے یہاںنوا ز شریف کے سابقہ مارشل لائی انداز فکر اور موجو دہ انقلابی نقطہء نظر پر بحث کرنامقصود نہیں۔کیو نکہ صبح کا بھو لا اگر 10950 شاموں کے بعد بھی گھر آجائے تواسے بھولا نہیں کہتے۔ پیش نظرواقعہ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے peak timeکا ہے۔غا لباً1983~84کی بات ہے،ہم نئے نئے لاہور پڑھنے کیلئے آئے تھے۔چو نکہ لنڈ ے با زار جانا ہما رے لئے با عث ندامت تھالہذا اپنے آپ کو لا ہو ریا بنا نے کیلئے ہم نے انا رکلی کے قدرے کم بدنام لنڈے با زار کو دریافت کر لیاتاکہ اپنے دوست نما دشمنوں کی اپنی طرف اٹھنے والی انگلیوں کو یہ کہہ کے مروڑ سکیں کہ ؛ کوئی ما ئی کا لال ثابت کر کے د کھا ئے کہ ہم نے یہ ملبو سات لنڈے سے خریدے ہیں۔لہذاسب سے پہلے ہم نے اپنے ایک ایسے دو ست کو ما ڈرن بنا نے کا فیصلہ کیا جن کو ایسا بنانے کیلئے کافی محنت درکا ر تھی کیو نکہ مو صوف اصلی دودھ دہی سے پلے ،پہلوان نما انسان تھے اور ٹمکنوں اور پھولوں والے لمبے چولے (قمیصو ں )پہننے کے عادی تھے اور جو اپنی کچھ مخصو ص خصو صیات کی بنا پر، میاں جبھوکا ، کامنفردٹائٹل حاصل کر چکے تھے۔کالج میں قدم رنجہ فرمانے کے بعد انکی بہت سی دریافتوں میں سے ایک دریافت یہ بھی تھی کہ سٹو ڈ نٹس کو ٹرین میں بھی ڈسکائو نٹ ملتا ہے ۔ایک مر تبہ ہم نے بس کی بجا ئے ٹرین پر اپنے شہر عا رفوالا جانے کا فیصلہ کیا۔ جس کیلئے کالج سے ایک performaملتا تھا جس پر دس سٹوڈنٹس ایک ہی وقت میںسفر کر سکتے تھے۔لہذا میا ںسلیم جبھوکا نے جذ بہ خیرسگالی کے تحت یہ کام اپنے ذمے لے لیااور وہ کالج آفس سے performaحاصل کر کے اسے fillکرنے بیٹھ گئے۔جس کے تین خانوں کے اوپر ہیڈنگزکچھ اس طرح سے تھیںN o..Names. Sex.. ۔ نمبر کے نیچے سٹوڈنٹس کی تعداد،Namesکے نیچے ان کے نام اور sex کے نیچے لکھنا تھا کہ سٹوڈنٹس male ہیں کہ female۔ ہما رے میاں صاحب کو پہلے دو کا لمز کی سمجھ توآ گئی مگر تیسرے کالم کی ہیڈنگ پڑھ کر وہ ٹھٹک گئے۔ کیونکہ sexکا مطلب جو وہ جانتے تھے اس لحاظ سے کسی سٹوڈنٹ کے با رے میںاس طر ح کی بات پوچھنا انتہا ئی نازیبا حرکت گردانی جا تی ہے ،مگر انھو ں نے اپنی اندرونی کیفیت کو چھپا تے ہوئے اپنے پاس بیٹھے اکرم گھو ڑے سے پوچھنا منا سب سمجھا۔اکرم گھو ڑابھی اپنی فنی طبیعت میں اداکار منور ظریف سے کم نہیں تھا۔اس نے پہلے میا ں صاحب کو ایک نظر دیکھا اور پھر پر اعتماد انداز میں کہا کہ :یار ، یہاں پر اس ٹرین کا نام لکھ دو جس پر جانا چا ہتے ہو۔میاں صاحب نے سکھ کا سا نس لیا کہ شکر ہے sexکا جو مطلب وہ جا نتے یہاں وہ نہیں استعما ل ہو رہا،لہذا انھوں نے بغیر وقت ضائع کیئے فورا اپنی منتخب کردہ ٹرین کا نام : خیبر میل : اس sex والے خانے میںلکھ دیا اورپھر وہ فارم لے کر متعلقہ کلرک کے پاس جا پہنچے ۔وہ تو جیسے ہما رے میاں صاحب کے ایتظار میں بیٹھا تھا اس ظالم شخص نے فارم پر ایک نظر ڈالتے ہی آفس میں مو جودتمام حضرات کو مخا طب کرتے ہوے اعلان کیا کہ :لو جناب۔ آپ نے اس کالج میں بڑے بڑے کر یکٹر دیکھے ہوں گے مگر ایسا کریکٹر نہیں دیکھا ہو گا ۔ جب سب لو گ تجسس سے اس کی جانب متو جہ ہوئے تو اس نے گویا اطلا ع دینے کے انداز میں کہا کہ جناب اس پہلوان کو دیکھو جو نہ male ہے نہ female بلکہ یہ ہے خیبر میل ،،بس یہ کہنا تھا کہ وہاں قہقہوں کا ایک شور بر پا ہوا۔اور میاں صاحب نے اس گھمبیر صورتحال سے پریشانی کے عالم میں فورا اکرم گھوڑے کی جانب دیکھاجو پیٹ پر ہا تھ رکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوا جا رہا تھا۔یہ تھا میاں جبھوکا کا کالج میں تعارفی پروگرام۔ اب ہم انھیں ماڈرن بنانے کیلئے انار کلی پہنچ گئے ۔ بڑی تگ و دو کے بعد ایک ،پیس، نکالاجو کہ نیلے رنگ کا ویلو ٹ کا کوٹ تھا جو نہ صرف ہما رے میاں صاحب کو فٹ بیٹھا تھا بلکہ ان کا منظور نظر بھی ہوچکا تھا۔جس کی ما لیت ہما رے لنڈا ماسٹر دوست نے تین صد روپے لگا دی ،مگر برانڈآن اسٹینڈ۔کے مالک نے صورتحال کو بھا نپتے ہوئے اس کوٹ کی قیمت پو ر ے پانچ سو روپے وصول کرنے کی ضد لگا لی۔ ہمارے لنڈا ماسٹر دانشورنے ایک سکیم کے تحت چپکے سے میاں جبھو کا ۔کوکو ٹ سمیت ایک کا ر کے پییچھے چھپا دیا ۔ یہ منظر بھی کیا تار یخی منظر تھا کہ ۔کبھی نہ جھکنے والا،نہ بکنے والا۔نہ دبنے والا۔نعرے کا مصداق پہلوان نما شخص ایک گا ڑ ی کے پیچھے دبا بیٹھا تھا۔گاہک کوٹ سمیت غا ئب پا کر ما لک کو تشو یش ہوئی اور اس نے ہم سے پیسوں کا مطا لبہ شروع کر دیا تو ہم نے کوٹ لے جانے والے کو اجنبی قرار دے دیااور کہا کہ ہم اسکو نہیں جا نتے وہ تو ہمیں یہیں ملا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ گا ئو ں سے پہلی بار لاہور آیا ہے اور یہ کہ کپڑوں کی خریداری میں ہم اسکی مدد کریں۔یہ سن کر دکا ندار کی پریشانی میں اضافہ ہوا لہذا اس نے ہما ری چندہ ڈال کر اسکو تین سو روپے ادا کرنے والی تجویز کو عافیت جانا۔ (جاری)
جنرل ضیاء کو کمرے میں بند کر دیا
Oct 18, 2020