لاہور (فاخر ملک) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) آج اپنے سربراہی اجلاس میںمہنگائی کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کرنے جارہی ہے۔ اس تحریک کی بنیادی فریق پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے جس نے جمعیت العلمائے اسلام اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک میں بدترین مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی پی ڈی ایم کے آج ہونے والے سربراہی اجلاس میں توثیق کی جائے گی۔ پی ڈی ایم کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ قوم کو مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی تباہی سے نجات دلانے کے لئے گھروں سے نکلنا ہوگا۔ اس ضمن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف جو کہ ملک میں مزاحمتی سیاست کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں کا رول سب سے اہم ہے جو کافی عرصہ سے کوشش کر رہے تھے کہ ملک میں ایسی تحریک چلائی جائے جس سے موجودہ حکومتی سیٹ اپ تلپٹ ہو جائے۔ اسی دوران پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ اب پی ڈی ایم کبھی پائوں پر کھڑی نہیں ہو سکے گی لیکن مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ بعض فیصلوں نے حکومت مخالف مہم کی راہ ہموار کر دی۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ عمران خان نے وزیرِاعظم بننے سے پہلے ملک کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ اپنی تحریک میں انہوں نے مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور جے یو آئی (ف) کو شدید ہدف تنقید بنایا۔ اس پورے معا ملہ میں انہیں میڈیا سمیت تمام اطراف سے سپورٹ حاصل تھی۔ حکومت نے آتے ہی (ن) لیگ کے پیش کیے گئے فنانس بل میں 2 بار ترامیم کیں۔ اس دوران ادویات، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ جبکہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہوتی رہی۔ ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی پسپائی بھی آج بلند ترین سطح پر ہے۔ جس کی وجہ سے ایک طرف مہنگائی بڑھ گئی تو دوسری طرف مزدور کی اجرت کم ہو گئی اور گزشتہ تین سالوں کے دوران مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اگرچہ اس دوران عالمی طور پر گھی اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں تھا تاہم قیمتوں میں اضافہ کی روک تھام کے لئے صوبائی حکومتوں کے اقدامات بھی بے اثر رہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تقریباً ایک درجن سے زائد اتحاد بنے لیکن انہی تحریکوں کو کامیابی ملی، جن میں یا تو بھر پور عوامی طاقت شامل تھی یا پھر ایسی تحریکیں کامیاب ہوئیں، جن کو مقتدر حلقوں کا تعاون حاصل تھا۔ موجودہ صورتحال میں پی ڈی ایم کو عوامی تائید حاصل ہو سکے گی یا نہیں اس کا جواب تحریک چلانے والوں اور عوامی تائید پر منحصر ہے۔ لیکن اسے کامیابی اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے اگر وہ موثر قوتوں کو بھی اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہوگی۔ متحدہ پاکستان میں اپوزیشن نے1967 میں ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کی ۔ 30 اپریل 1967 کو نواب زادہ نصر اللہ خان نے پانچ پارٹیوں پر مبنی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیا۔ پاکستان کی سیاسی تحریکوں میں ایوب خان کے خلاف پہلی تحریک تھی، جس کا دبائو ایوب حکومت نے محسوس کیا اور ایوب خان مستعفی ہوئے اور اقتدار یحییٰ خان نے سنبھال لیا۔1971میں سقوط بنگال کے بعد پہلی مرتبہ 1977 میں انتخابات منعقد ہوئے تو پیپلز پارٹی کے خلاف 9سیاسی و مذہبی جماعتوں نے انتخابی دھاندلی کے الزامات لگا کر ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ (پاکستان نیشنل الائنس) پی این اے کے نام سے ایک اتحاد بنایا۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے سول نافرمانی کی تحریک میں بدل گیا۔ 1988 کے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آ ئی) کے نام سے بھی 9 جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم اور بڑا اتحاد ایم آر ڈی (موومنٹ فار ریسٹوریشن فار ڈیموکریسی) بنا۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں 10 سے زیادہ سیاسی جماعتیں شامل تھیں جو1981 میں بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی قیادت میں ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف قا ئم ہوا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپوزیشن کا یہ اتحاد طویل مدت (1981 سے 1988) تک قائم رہا۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر بھی کئی اتحاد بنے، جن میں ایک اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد تھا، جس کی بنیاد پیپلز پارٹی کے مخالف سیاسی رہنمائوں نے رکھی اور اس کی قیادت غلام مصطفیٰ جتوئی نے کی۔ تاہم اس اتحاد کو انتخابات میں نمایاںکامیابی نہ مل سکی۔ 1990 میں ہونے والے انتخابات سے قبل بھی دو بڑے اتحاد بنے، جن میں پیپلز ڈیموکریٹک الائنس اور اسلامی جمہوری اتحاد جو کہ پہلے سے بنا ہوا تھا، سامنے آئے۔ لیکن 12کتوبر 1999 کو یہ اتحاد جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اقتدار سنبھالتے ہی ختم ہو گیا۔ اس دوران ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک بار پھر 15 سے زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو ئیں اور ایک نئے سیاسی اتحاد اور تحریک کی بنیاد رکھی گئی، جس کا نام ’’تحریک بحالی جمہوریت‘‘ اے آر ڈی رکھا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی ایک بار پھر برسر اقتدار آگئی اور اب پی ڈی ایم کا اتحاد معرض وجود میں آیا جس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔