’’ولادت حضورؐ پُرنور احسان عظیم ہے‘‘ مگر ہم کہاں کھڑے ہیں؟

قارئین ہم مسلمانوں بلکہ کل اہل زمین کے فلک پیما نصیبوں کے فخرومان کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمیں وہ پاک مہینہ‘ پاک دن ایک بارپھر نصیب ہوا ہے جب ظالم وجبر اور وحشت وجہالت کے گٹھا‘ ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی  انسانیت کیلئے آسمان کی بلندیوں سے رحمتوں اور برکتوں کی بارش نور کی صورت میں ہوئی ہم حقیر وبے مایہ انسانوں پر علم وآگہی کی دولت لٹانے کیلئے معلم اخلاق‘ رہبر انسانیت ‘ خلق اکمل اور قرآن ناطق رحمتؐ لعالمین معبوث ہوئے۔ یہ نزول قرآن کا معجزہ ہے کہ قرآن حکیم میں ہمیں حضورؐ پُرنور کی صفات جلیلہ وکاملہ کا عکس نظر آتا ہے یا دوسرے الفاظ میں حضرت عائشہؓ کے قول کے مطابق آپ خلق کے لحاظ سے مجسم قرآن ہیں آج اس بابرکت مہینے کے حوالے سے ہم نے فکر وتدبر یہ کرنا ہے کہ ہم پچھلے چودہ سو سال میں رہبرانسانیتؐ کی سیرت طیبہ کے کسی ایک بھی پہلو کی پیروی تک پہنچ پائے ہیں یا ابھی تک ذہنی وروحانی اعتبار سے آپ کی بعثت سے قبل والے کالے دور بھی رہے ہیں۔ ہم کہاں سے چلے اور کہاں کھڑے ہیں کہیں ہم اس مقدس نام کے محض نام لیوا تو نہیں ہیں؟ کہیں ہم اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے پچھل پیرے تو نہیں ہوگئے کہیں ہم عملاً دور جاہلیت میں تو نہیں ہیں؟قارئین! بات اس ہستی اطہرؐ کے حلم کامل کی ہو یا آپؐ کے ایثاروانصاف کی ہو‘ صداقت وشرافت کی ہو یا آپؐ کی امانت ودیانت کی ہو‘ خلق عظیم کی ہو یا انسانیت پرستی کی ہو ہم قرنوں تک اس کی تفصیل وتفسیر کو حد تحریر وتقریر میں نہیں لاسکتے ایسے انوہی تخمینوں اور انداروں تک پہنچنے کیلئے ہمارے قلم خشک‘ سوچیں شل اور زبان گنگ ہو جاتی ہے ذرا سوچیئے خود جس رب العالمین کا ذکر پاک کتاب اول وآخر میں یوں درج ہے کہ ’’اگر سمندر رب کی تعریف کیلئے سیاہی ہو تو ضرور ختم ہو جائیگی مگر رب کی باتیں ختم نہیں ہوں گی اگرچہ کہ ویسا ہی ایک اور سمندر اس کی مدد کیلئے لے آؤ (القرآن)
تو پھر اس حسن کامل نے اپنے محبوبؐ کو کس شان سے خالق کیا ہوگا؟ اور اسے کیا کیا صفات عظمیٰ دویعت کی ہونگی؟ حسن سلوک اور حلم کامل کی اس سے بڑھ کر مثال اور کیا ہوگی کہ ایک سفر کے دوران عقبہ بن عامر آپ کی تعظیم وتکریم کے مدنظر کہتے ہیں کہ اونٹ پر تشریف رکھیے میں مہار پکڑ کر سفر جاری رکھونگا۔ فرماتے ہیں یہ کس طرح ممکن ہے میرے کسی عمل سے ناانصافی کا اظہار ہو؟ میں اپنی باری پر مہار 
خودپکڑوں گا آپ سوار ہونگے ۔ جی ہاں یہ الفاظ اس ہستی کاملؐ کے ہیں جن کے دست مبارک میں کل جہانوں کی مہاریں تھیں۔ راست بزمی وصداقت کی وہ مثال بے مثال کہ کفار کو دعوت حق دینے سے پہلے فرماتے ہیں کیا آپ یقین کریں گے اگر میں یہ کہہ دوں کہ اس پہاڑی کے اس پار دشمن آپ پر حملے کیلئے تیار کھڑا ہے تو جواب میں کفار تک کے جواب سے دشت وجبل گونج اٹھتے ہیں کیوں نہیں یا صادق۔ ہم مانتے ہیں‘ ہم جانتے ہیں‘ ہم دیکھتے ہیں کہ ایثار کے کیا کہنے کہ گھر میں آئے ہوئے مہمان کی تواضع میں اسے دودھ پیش کر دیتے ہیں اور خود خالی پیٹ عبادت کیلئے ایستادہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح امانت ودیانت کا وہ واقعہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ ہجرت مدینہ کے وقت حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹا کر جاتے ہیں کہ لوگوں کی امانتیں لوٹا کر واپس آنا۔ ضبط وحوصلے کا وہ عالم کہ جو بوڑھی عورت ہستی اقدسؐ پر کوڑا کرکٹ گراتی تھی اس کی تیمارداری میں دن رات کا فرق مٹا دیتے ہیں صحابہؓ حیران ہو کرپوچھتے ہیں کہ ایسا کیوں؟ فرماتے ہیں وہ اس کا عمل تھا یہ میرا عمل ہے خاتون کی حددرجہ بدسلوکی  کے جواب میں ایسے بھاری اور چکنا چور کر ڈالنے والے الفاظ صرف وہی اکمل ہستیؐ ہی فرما سکتی تھی جن کے حوصلوں کو فرشتے جھک کر سلام پیش کرتے تھے اور جس واقعے کو محض پڑھنے پر بھی ہم کم ظرفوں کا بہت زور صرف ہوتا ہے ۔ انصاف کا معاملہ اٹھتا ہے تو چوری کرنے والی خاتون کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتے وقت اپنی جگر گوشتہ حضرت بی بی فاطمہؓ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں اس کے لیے بھی بخدا قطع ید کا حکم دیتا۔غرضیکہ آپؐ کی سیرت طیبہ کے کس کس گوشے کی بات کی جائے بات تو یہ کرنی ہے کہ ہم جن کے لیے ان کی حیات اقدس کا لمحہ لمحہ قابل تقلید وپیروی ہے کہاں تک اس پر عمل پیرا ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم تہی دستوں کے پاس آپؐ کی پیروی کا کبھی ختم نہ ہونے والا ایک خزانہ ہے ایک ایسی دولت جس پر ہم سارے زمانے کی دولتیں لٹا دیں تو پھر بھی صاحب ثروت اور دولت مند کہلائیں مگر افسوس کہ ہم سے اتحاد کی دولت چھن گئی ہے ہم تمام مسلمان بکھر گئے ہیں۔ ٹکڑے ٹکڑے اور ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں
 ہمیں استعماری طاقتیں پارہ پارہ کررہی ہیں ہم کم نصیبوں نے حضور پُرنور کا فرمایا بھلا دیا ہے۔ آپؐ نے ہمیں فقر میں فخر کائنات کا فلسفہ سمجھایا ہم دونوں ہاتھوں سے مال ودولت سمیٹنے لگ گئے اور خود غرض انتہا تک پہنچا دی ۔ آپؐ نے  دائی حلیمہ کی آمد پر اپنے دوش مبارک سے چادر اتار کر زمین پر پھیلا کر عملاً ہمیں عورت کی چادر کا تقدس سکھایا ہم نے عورت سے وہی چادر چھین کر تار تار کر دی… رحمتؐ
 لعالمین نے بچیوں کو زندہ زمین میں گاڑھنے کی رسم مٹا دی ہم نے وہ رسم مٹا دی ہم نے وہ رسم بچیوں کی ماؤں کو زندہ جلا کر دوبارہ زندہ کر دی‘ آپؐ نے حلم کا عملی درس دیا ہم نے ظلم اپنا لیا۔
قارئین‘ ہمارے مذہب میںنیکی اور احسان وانصاف کی غیر معمولی مثالیں موجود ہیں لیکن ہم ہیں کہ جن حضرات کے گھروں میں دولت پانی کی طرح بہہ رہی ہے کس بھوکے کے پیٹ میں دو روٹیاں اور حلق میں قطرہ پانی نہیں ڈال دیتے کہ ان کی دولت کے سمندر سے دوقطرے کم ہو جائیں گے۔ اس امین نے ہمیں دیانت کا سبق دیا ہماری پوری قوم ہی بے ایمان ہوگئی۔ اس نے مساجد آباد کرنے کو فرمایا یہاں گلی گلی سینما گھر کھبیموں کی طرح اُگ آئے ہیں۔ آپؐ نے امن وآشتی کی بھرپور تلقین فرمائی یہاں  بم کے دھماکوں میں ہزاروں بے گناہوں کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ آپؐ نے زمین اور آسمانوں تک میں اپنی صداقت کا معیار قائم فرما دیا ‘ ہمارے ہاں ہر زبان جھوٹ اُگل رہی ہے ‘ آپؐ نے انسانیت پرستی عام کی مگر مسلمانوں میں آپس کی جنگیں ہی ختم نہیں ہوتیں۔ جبکہ طرفہ یہ کہ ان تمام جانگسل حقائق کے باوجود بھی مسلمانوں کو یہ مان گمان مطمئن کیے ہوئے ہیںکہ وہ حضور پُرنور کی پیروی کررہے ہیں۔ حالانکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ ہم خود کو خود ہی کل قرار دے کر اپنے اعمال بدکو اعمال خیر سمجھ لیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارا فریب نفس ہے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم سوچتے ہیں پیروی سنت نبوی سے ہٹ کربھی اگرہم کوئی کام کررہے ہیں تو اس کا علم صرف ہم تک محدود ہے کسی دوسرے کو کچھ معلوم نہیں ہے نہ ہی اللہ تعالیٰ ہمارے کرتوتوں سے واقف ہے۔ جبکہ فرمان الہیٰ ہے۔’’ اور سُن رکھو اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے وہ تماری بُری
 مشورت اور سرگوشیوں تک کو بھی سنتا ہے وہ ہر چیز کو بنانے والا‘ ہر چیز پر نگہبان ‘ پورا باطن‘ پورا خبردار… کسی کی آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں مگر سب کی آنکھیں اس کے احاطے میں ہیں۔ (القرآن) اے کاش  مسلمانان عالم ہر سال قرآن ناطق‘ رحمتؐ لعالمین کے ولادت باسعادت کے دن کی یادداشت کے موقع پر اپنے باقی 364 دن کا پروگرام بھی طے کرلیا کریں کہ آئندہ ہمارا کوئی ایک بھی عمل اپنے رہنمائے اول وآخر کی پیروی سے ہٹ کر نہ ہوگا اور ہمارا ایسا کرنا ہی دراصل رب العالمین کے حضور اس احسان عظیم کے تشکر کا سبب بن سکتا ہے جو اس نے آج کے دن اوراس مبارک مہینے میں ہم پر اپنے پیارے محبوب حضورؐ پُرنور کی ولادت باسعادت کی صورت میں کیا ہے۔


  

ای پیپر دی نیشن