آصف علی زرداری کی شخصیت سے ہزار داستانیں جڑی ہوئی ہیں ‘بعض معاملات میں ان کا کردار بڑا پر اسرار دکھائی دیتا ہے‘ بعض معاملات میں ان کا بڑا پن کھل کر سامنے آتا ہے تو بعض معاملات میں وہ بڑے صابر شاکر دکھائی دیتے ہیں۔ ساتھ ہی وقت آنے پر وہ ایسی چوٹ لگاتے ہیں کہ مخالفت کی اگلی پچھلی کسریں پوری کر دیتے ہیں۔ مہربان ہونے پر آتے ہیں تو دوستی کی انتہاوں کو چھو جاتے ہیں۔ سیاسی داو پیج کی بات کریں تو ایسے ایسے دھوبی پٹکے مارتے ہیں کہ بڑے سے بڑے سیاسی کھلاڑی منہ میں انگلیاں دبا لیتے ہیں۔ اگر انہیں حالیہ سیاست کا جادو گر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انھوں نے انتہائی زیرک انداز سے بغیر این آر او لیے اپنے اور ساتھیوں کے لیے سہولتیں بھی حاصل کیں اپوزیشن کا کردار بھی احسن طریقے سے سرانجام دیا اور حکومت کو بغیر کسی کو محسوس کروائے کسی سیاسی گیم میں پھنسنے نہیں دیا۔ اس طریقے سے بعض معاملات میں حکومت کی مدد کی کہ اپنے اوپر داغ بھی نہیں لگنے دیا اور اگلے کا بھی بھرم رکھ لیا۔ خاص کر جس خوبصورتی کے ساتھ پی ڈی ایم کے استعفے اور لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا نکالی، وہ سیاسی کھیل کا زبردست سٹروک تھا جو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے اپنی بہترین حکمت عملی کے باعث اپنے آپ کو قابل قبول بنوایا، اب وہ اپنی جماعت کے اقتدار میں آنے کی راہیں ہموار کر رہے ہیں۔ میرے استاد محترم خوشنود علی خان نے ان پر ’’مفاہمت کے بادشاہ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ شاگرد ہونے کے باوجود میرا ان سے اختلاف رہتا ہے۔ میں ان کی کوششوں کے باوجود ان کے رنگ میں نہیں رنگا جاسکا لیکن ان کا احترام میں فرض سمجھ کر کرتا ہوں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں بھٹو خاندان، زرداری خاندان اور پاکستان کی تاریخ کے کئی باب رقم کیے ہیں۔ کئی اہم باتیں جو آج تک منظر عام پر نہیں آئیں وہ سامنے لے کر آئے ہیں لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے انصاف نہیں کیا ‘جتنا ان کا آصف علی زرداری سے تعلق ہے اور جتنا کچھ وہ جانتے ہیں، اتنا کچھ انہوںنے لکھا نہیں یا تو وہ بھی کسی مصلحت کا شکار ہو گئے ہیں یا انہوں نے حق دوستی نبھایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گھوڑے کی گھاس سے دوستی والی بات ہے‘ ایک تو نہ جانے انہوں نے کتاب لکھ کر اتنے سال کیوں رکھ چھوڑی اور اسے پرنٹ کیوں نہیں کروایا، دوسرا کئی موضوعات میں رپورٹنگ کی گئی ہے، اسے کتابی مواد کی صورت میں پیش نہیں کیا گیا۔ سنا ہے وہ بلاول بھٹو پر بھی کتاب لکھ رہے ہیں لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ اس کتاب کو حالات حاضرہ سے ہم آہنگ کرکے اس کا نیا ایڈیشن نکالیں۔ انہوں نے آصف علی زرداری کے بچپن سے لے کر ان کی تعلیم، سیاست، کاروبار، یاری دوستیوں، عزیز داریوں تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ان کی شادی کیسے ہوئی ،دونوں میاں بیوی کے تعلقات ان پر لگنے والے الزامات بارے بھی احاطہ کیا ہے۔ مختلف اہم شخصیات کے ساتھ خوبصورت تصاویر بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آصف علی زرداری کو سیاحت کا بہت شوق ہے ۔جب وہ لندن میں پڑھتے تھے تو وہ موقع ملنے پر کویت، پیرس، ہیگن اور سویڈن چلے جایا کرتے تھے۔ وہ نہ حساب کتاب رکھنے اور نہ بچت کرنے کے عادی ہیں۔ جوانی میں فلموں کے دلدادہ تھے، سوئمنگ، سکواش، پولو اور رائڈنگ ان کے پسندیدہ مشاغل ہیں۔ رائڈنگ کے شوق میں ایک بار وہ گھوڑے سے گر کر اپنی ٹانگ بھی فریکچر کروا بیٹھے تھے۔ وہ اپنے ارادوں کے بڑے پکے ہیں۔ لندن کی فضا سے آکر اچانک اپنے کھیتوں میں چلے گئے، کئی سال شدید موسم میں کھیتی باڑی کرتے رہے، پھر کنسٹرکشن کا کام کیا ۔خوشنود علی خان نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ میں جب صحافیوں کے ہمراہ ایوان صدر داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک بابا ننگے پاؤں ہال میں پھونکیں مار رہا ہے۔ صدر زرداری کی ملاقات سے زیادہ دلچسپ ملاقات اس بابے سے رہی۔ کالے بکروں کا صدقہ زرداری کی گاڑی ایوان صدر سے نکلنے سے پہلے بابا کا اس کے گرد حصار کھینچنا معمول تھا۔ زرداری اتنے توہم پرست تھے کہ کبھی وہ انکے کہنے پر سمندر کے کنارے چلے جاتے ،کبھی پہاڑوں کے درمیان رہتے اور کبھی سمندر پار چلے جاتے۔ نواز شریف سے انکی دشمنی پرانی تھی۔ وہ کبھی کبھار حالات کی مجبوریوں اور وقت کی نزاکتوں کے سبب ان سے مفاہمت تو کر لیتے لیکن پھر جب بھی انہیں موقع ملتا وہ حساب کتاب برابر کرنے میں لمحہ بھر کی دیر نہ کرتے، ایک جگہ پر لکھتے ہیں کہ معاملات کی سنجیدگی کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی ضمانت قبل از گرفتاری ہے کہ ختم ہی نہیں ہو پاتی، دوسری جانب ان کے خلاف تحقیقات ہیں کہ مکمل ہی نہیں ہو پاتیں۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ زرداری کا اطمینان بتا رہا ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ انہوں نے دلچسپ حقیقت بتائی کہ آصف علی زرداری کے خلاف بے نظیر بھٹو سے شادی سے قبل کوئی مقدمہ نہیں تھا۔ انہوں نے کتاب میں یہ بھی بتایا ہے کہ چارٹر آف ڈیمو کریسی کی شق 32 کے تحت آئی ایس آئی ملٹری انٹیلی جنس اور تمام دیگر ایجنسیوں کو منتخب حکومت کے ماتحت بنانے اور تمام خفیہ اداروں کے سیاسی شعبے ختم کرنے کی سفارش کی گئی ،اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جہاں اعتماد والا تعلق تھا ،وہاں زرداری شطرنج کی طرح سیاسی چالیں چلنے سے بھی نہیں چوکتے تھے اقتدار میں آتے ہی آئی ایس آئی اور آئی بی کو وزارت داخلہ کے ماتحت لانے کیلئے نوٹیفیکیشن کا اجراء جو چند ہی گھنٹوں بعد واپس لینا پڑا، اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور برداشت کو شاید ناپنے کی کوشش تھی۔ ایک جگہ پر لکھتے ہیں زرداری نے اپنے گھر میں بے نظیر کے ایک کمرے کو مزار کا درجہ دے رکھا ہے۔ دوبئی میں ان کی خواب گاہ کو مقفل کر رکھا ہے کہ وہاں سے بے نظیر کی خوشبو آتی ہے، زرداری کی طبیعت میں خاموشی اور صبر جیسی چیز موجود ہے جو کہ پاکستان کے بہت سے سیاستدانوں میں نہیں ہے۔ وقت گزارنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اور اگر کوئی انکے خلاف بولے تو جواب میں خاموشی ان کی بڑی خوبی ہے۔
بے نظیر کے قتل کے بعد پاکستان کھپے کا نعرہ، اتفاق رائے کی حکومتوں کا قیام سیاسی طریقے سے پرویز مشرف کی چھٹی آئین میں ہونے والی ترامیم کا خاتمہ کر کے اختیارات پارلیمنٹ کو دینا ،سی پیک کا خواب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام انکے بڑے کارنامے ہیں۔ ان کو ٹین پرسنٹ کیوں کہا جاتا ہے، انکے خلاف درج مقدمات کی حقیقت کیا ہے اور بہت سارے متنازعہ معاملات کی حقیقت جاننے کے لیے کتاب ’’مفاہمت کا بادشاہ ‘‘ ضرور پڑھیں۔
مفاہمت کا بادشاہ
Oct 18, 2021