افغان حکومت کوفوری تسلیم کیا جائے 

دیارِ غیر میںبسنے والے پاکستانیوں کے دل و دماغ میں الائو بھڑک رہے ہیں ،ذرا کوئی بات چھیڑ دو توانہیں اپنا کتھارسس کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔برمنگھم کے عبدالغفار صاحب نے بھی میرے ساتھ اتنی لمبی بات کی کہ اسے دو حصوں میں پیش کرنا پڑ رہا ہے ،انہوں نے پہلے تو اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور اپنے لیے خصوصی نشستوں کے مسئلے پر دلائل کا ڈھیڑ لگا دیا۔پھر انہوں نے موضوع بدلا اور وہ افغان ایشو کو لے بیٹھے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ پاکستان نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرکے بہت بڑے بلنڈر کا ارتکاب کیا ہے ۔پاکستان وہ ملک ہے جس نے چین کو سب سے پہلے تسلیم کیا اور اقوام متحدہ میں اسکی رکنیت کے لیے لابنگ کی۔افغانستان بھی ہمارا مغربی ہمسایہ ہے ،وہ طویل سرحد کے ساتھ ہم سے جڑا ہوا ہے، کبھی ہم اسے اپنی سٹرٹیجک ڈیپتھ قرار دیتے ہیں یعنی اسے اپنے دفاع کے لیے ناگزیر خیال کرتے ہیں اور آج جب طالبان نے بیس سال تک قربانیاں دینے کے بعد اپنے ملک کو غیر ملکی افواج سے آزاد کروایا ہے تو ہم نے اس پر خوب بھنگڑے ڈالے ۔وزیر اعظم نے خوشی کے مارے یہ بھی کہا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں مگر کس قدر ستم ظریفی ہے کہ جب طالبان نے کابل پر خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر اور ایک گولی چلائے بغیر قبضہ کیا ہے تو اپنی آزاد حکومت کا اعلان کردیا ہے،ہمیں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ہم اسے فوری طور پر تسلیم کرتے ۔عبد الغفار صاحب نے کہا کہ اگر تو ہم امریکی دبائو میں ہیں تو یہ ہماری ایک اور غلطی ہے،پہلے ہم نے امریکی دبائو میں آکر طالبان کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی استحصالی اور ظالم افواج کا ساتھ دیا ،اور آج ہم امریکی اشارے پر پھر طالبان سے دور ہوگئے ہیں ،ایک ایک لمحہ گزرتا ہے تو ہمارے اور طالبان کے درمیان دراڑ وسیع ہورہی ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ جن طالبان کو ہم نے امریکہ کے سامنے مذاکرات کی میز پر بٹھایا، آج ہم ان کی حیثیت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور انہیں پر کاہ کے برابر اہمیت نہیں دے رہے ۔کوئی ذی ہوش شخص پاکستان کی اس خارجہ پالیسی کی ستائش نہیں کرسکتا ، عبدالغفار صاحب نے کہا کہ ہم افغانستان کے لیے بہت رو دھو رہے ہیں کہ وہاں قحط ہے، بھوک ہے، افلاس ہے، تباہی ہے، بربادی ہے لیکن ہمیں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ہم ان کے لیے کوئی چیرٹی فنڈ قائم کرتے ،بے چارے افغانوں کے اربوں ڈالر امریکی بنکوں نے ضبط کرلیے ہیں ،افغانیوں کے پاس روز مرہ اخراجات کے لیے پیسے نہیں ہیں اور ہمارا اصرار یہ ہے کہ ہم افغانستان کو اس وقت تسلیم کریں گے جب وہ اپنی حکومت چلا کر دکھائیں اور ملک میں اپنی رٹ قائم کریں ۔عبدالغفار صاحب کہتے ہیں کہ بھلا ایک بھوکی ننگی حکومت کیا کردار ادا کرسکتی ہے‘ کس طرح اپنی رٹ قائم کرسکتی ہے؟حکومت کا خزانہ خالی ہے اور عوام کے پیٹ خالی ہیں اور ہم پاس بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔عبد الغفار صاحب نے کہا کہ مجھے حکومت پاکستان کی آنیاں جانیاں سمجھ نہیں آتیں ،کبھی دوشنبے میں کانفرنسیں ہوتی ہیں، کبھی ہم چین، ایران اور روس سے رابطہ کرتے ہیں مگر تیسرا مہینہ ہونے کو آرہا ہے، افغان حکومت کی دامے درمے کوئی مدد نہیں کی جارہی ،بس ہمارے پاس باتیں ہی باتیں ہیں اور ہم کوئی ایکشن کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ،ہم ہچر مچر کا شکار ہیں ۔ہم اس مخمصے سے نکل نہیں پا رہے کہ افغان حکومت نہ مخلوط ہے نہ وسیع البنیاد ہے ،ہم دوربینیں لے کر اور خردبینیں لے کر افغان حکومت کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کیا اس میں کوئی عورت شامل ہے،کیا اس میں کوئی شیعہ شامل ہے اور کیا اس میں ہزارہ کو نمائندگی دی گئی ہے،ہمارے ہونٹوں پر سوال ہی سوال ہیں کہ طالبان نے حامد کرزئی ا ور اشرف غنی جیسے غداروں اور امریکی پٹھوئوں کو حکومت میں شامل کیوں نہیںکیا۔عبد الغفار صاحب نے سوال اٹھایا ہے کہ امریکہ پاکستان، روس اور چین اور وسط ایشیا کے ممالک طالبان سے وسیع البنیاد حکومت کا مطالبہ تو کر رہے ہیں مگر کیا ان ملکوں نے اپنے ہاں مخلوط حکومتیں قائم کر رکھی ہیں،کیا اوبامہ کی حکومت میں ٹرمپ کو شامل کیا گیا ہے‘ کیاپاکستان میں نواز شریف زرداری اور بلاول کو ملا کر مخلوط حکومت بنائی گئی ہے‘ کیا بھارت میں بی جے پی نے کانگرس کے راہول گاندھی اور سونیا گاندھی کو کابینہ کا رکن بنایا ہے ۔عبد الغفار صاحب کا کہنا ہے کہ جس اصول پر دنیا عمل نہیں کرتی تو جن طالبان نے بیس سال تک لاکھوں جانیں قربان کرنے کے بعد فتح حاصل کی ہے وہ غداروں اور مفتوحین کو اقتدار میں کیسے شریک کرسکتے ہیں ۔عبد الغفار صاحب نے یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ پاکستان امریکی گودمیں تو جا بیٹھتا ہے لیکن امریکہ سے کبھی اس کو کوئی صلہ نہیں ملا ۔کبھی کوئی خیر کی خبر بھی نہیں ملی ،جبکہ بھارت نے روس کو اپنا ہمنوا بنایا تو اکہتر میں اس نے روسی کیمونسٹوں کے ساتھ مل کرپاکستان کو دو لخت کردیا تھااور امریکہ جو ہمارا حلیف تھا وہ تماشہ ہی دیکھتا رہ گیا۔ اس کا بحری بیڑہ ملاکا کے سمندروں سے آگے نہ بڑھ سکا اور ہم مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ دوسری طرف ہم نے 80ء کے عشرے میں امریکہ کا ساتھ دیا تو ہمیں اس کے صلے میں ہیروئن،کلاشنکوف اور فرقہ وارانہ کلچر ملا ،نائن الیون کے بعد ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا ،تو ہمارے بہنوں اور بھائیوں کی ستر ہزار لاشیں گریں اور وزیر اعظم عمران خان بار بار کہتے رہتے ہیں کہ معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔آج ہم پھر امریکہ کے مشورے مان رہے ہیں تو ہمیں اس سے کیا ملے گا سوائے اسکے کہ ہم طالبان کی ہمدردیاں اور حمایت کھو بیٹھیں اور اپنی مغربی سرحد کو پر آشوب بنا لیں۔عبد الغفار صاحب نے کہا ہم قرآن کا یہ سبق بھول گئے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے، قرآن سے رو گردانی کرکے ہم اپنا بھلا نہیں کر سکتے۔دانش مندی کا تقاضہ ہے کہ ہم افغان حکومت کو بلا تاخیر تسلیم کریں ،طورخم اور قندھار ر کا بارڈر کھولیں ،افغانیوںکو اناج اور دوائیںفراہم کریں اور ان کی دعائیں لیں ۔ 
عبدالغفار صاحب نے بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے افغان سرحد پہلے سے بند کر رکھی ہے۔اب کابل کیلئے پی آئی اے کی پروازیں بھی بندکردی ہیں، اس سے تو ہم افغانیوں کے دلوں سے نکل جائیں گے۔ اور اگر کوئی قربت ہے تو ہوا ہوجائے گی۔پاکستان کے پالیسی سازوں کو اپنی روش پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن