جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارا گھر ننکانہ کے قریب قصبہ میں تھا۔ جو کہ ابھی بھی ہے۔ ایک پرائیوٹ گلی تھی اس پر گیٹ تھا۔ اور یہ گلی مین روڈ کی ذیلی گلی تھی۔ سب سے پہلا ہمارا گھر تھا ہمارے گھر کے سامنے نانی کا گھر تھا۔ اور پھر اس کے ساتھ دوسرے عزیزوں کے گھر سب اپنے تھے۔ پھوپھو ، خالہ ،ماموں سب۔ چھوٹی چھوٹی دیواریں ، بڑے بڑے احاطے ، چھتوں کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں۔ جب برسات کا موسم ہوتا ہم ایک چھت پر چڑھتے اورآخری گھر کی سیڑھیوں سے اترتے اور پھر پوری گلی میں بھاگتے شور مچاتے۔ درختوں سے لگے جھولے جھولتے ، جہاں دل کیا کھانا کھانے بیٹھ جاتے۔ سب بڑے دل اور محبت سے بچوں کو کھانا پروس دیتے تھے۔ کسی کے بچے کو چوٹ لگی تو کہرام مچ جاتا۔ یا کوئی بیمار ہوتا تو صحن میں سارا خاندان اکھٹا ہو جاتا ، چائے کا دور چلنے لگتا ، گرمی ہے تو شربت، پانی ، اس وقت گھر کا بنا آم اور مالٹے کا سکیویش، لال شربت یا پھر پانچ اور بعد ازاں سات روپے والی سیون اپ ، مرینڈا ، شیزان ، دودھ سوڈا یہ ہی مشروب چلتے تھے۔اچار سب خواتین مل کر بناتیں۔ سب سے بڑا گھر نانی کا تھا اور بڑوں والا گھر بھی وہ ہی تھا۔ بس اسی گھر کے صحن میں ہر طرف کچے آموں ، لیموں ، اور سبز مرچوں کی بہار ہوتی۔ ایک طرف گاؤں سے کچھ مددگار خواتین ٹوکے سے آموں کو کاٹ رہی ہوتی تھیں۔ کوئی مصالے صاف کر رہا ہے۔ کوئی سرسوں کا تیل گرم کر رہا ہے۔ اور ہم چھوٹے بچے۔؟ ہم تو کچے آم کھا رہے ہوتے تھے۔جب سبز چنے منگوانے ہوتے تھے تونانی سب گھروں میں کہلوا بھیجتیں کہ وہ اکھٹے چنے منگوا رہی ہیں۔پھر سب ادھر نانی کے گھر اکھٹی ہوتیں۔ ساتھ ہم بچے بھی۔ سب خواتین مل کر سبز چنے چھیلتیں۔ اور ہم بچے آدھے تو کچے کھا جاتے اور کچھ چنے تندور میں جلا کر کھاتے۔ اس کو ہمارے ہاں بھوکیں کہا جاتا تھا۔ اس کا ذائقہ لکھتے ہوئے میرے اندر سرایت کر رہا ہے۔مٹروں کا بھی یہ ہی معاملہ رہا۔ ساگ بھی عموما مل کر ہی کاٹا اور بنایا جاتا تھا۔ قربانی ایک جگہ نانی کے گھر ہوتی۔ وہیں سب کے جانوروں کا اکٹھے گوشت تیار ہوتا وہیں پر حسنہ نائی معلوم نہیں کہ زندہ ہے یا نہیں وہ بہت لذیذ دیگ بناتا تھا۔ وہیں سب مل کر کھاتے۔ شادی بیاہ ، دیگر مواقع پر سب اکٹھے کام کرتے۔ ہم سب شام کو نانی کے صحن میں اکٹھے ہوتے ، ہر طرف چارپائیوں کی بہار۔ سب بڑے بزرگ اکٹھے ہیں خوش گپیوں میں مصروف ہیں قہقہے گونج رہے ہیں۔ ایک طرف ہم سب بچے کھیل رہے ہیں۔سب ساتھ رہتے تھے۔ ایک طرح سے جوائنٹ فیملی تھی۔ لیکن بڑے احاطے میں آمنے سامنے اپنی اپنی رسویاں اور الگ کمرے۔ سب کے گھروں کا یہ ہی معاملہ تھا۔ اس سے بہت سے مسائل جنم ہی نہیں لیتے تھے۔ جو جوائنٹ فیملیز میں اکثر ہوتے ہیں۔لڑائی جھگڑے ، ناراضگیاں بھی ہوتیں تو ہم بچوں تک نہیں پہنچتیں۔ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ ہمارے بڑوں میں کوئی اختلاف ہے۔ اس وجہ سے ہم نے ہمیشہ بڑوں کی عزت کی۔ ہماری پسندیدہ چیزہں جب بھی پکتی ہماری نانی ہمیں لازمی بھجواتیں۔ نانی کے ہاتھ کا ذائقہ تو میں آج بھی کھانوں میں تلاش کرتی ہوں۔ نانی آگرہ سے تھیں۔ انھیں دریا کنارے اپنی حویلی اور تقسیم کا وقت بھی یاد تھا۔ حالانکہ تقسیم کے وقت وہ چھ سات سال کی تھیں۔ ان کے بہت سے عزیز ، سہیلیاں اور بہت بڑی حویلی کا دکھ۔سب ہندوستان رہ گئے۔ اس دکھ سے ان کی آنکھیں بھر آتی تھیں۔ امی کی تائی بھی ہندوستانی تھیں۔ وہ کراچی سے چھالیہ اور پان کے پتے منگواتیں۔ چھالیہ صحن میں سوکھنے ڈالتیں۔ پاندان سے جیسے ہی سروتا باہر نکلتا جب وہ ہم اپنے ہاتھ پھیلا دیتے وہ سب کو تھوڑا تھوڑا دے دیتیں۔ امی کی تائی کے صحن میں آم ، جامن اور انار لگے ہوئے تھے۔ ہم سب بچے انار اور جامن کھاتے۔ آندھی آتی کچے آم گرتے تو وہ سب بچوں کو کہلوا بھیجتیں کہ اپنا حصہ لے جائیں۔ کبھی ڈانٹا نہیں کہ بچے کیوں توڑ کر کھا رہے ہیں۔ یقین کریں ہم جتنا پھل توڑتے اتنا ہی شاخیں پھلوں سے لدی رہتیں۔ امی کی پھوپھو کے گھر سرخ بیروں کا درخت تھا۔ اس پر بھی ہم سب کا حق تھا۔ بیری انکے آدھے گھر پر سایہ کیے ہوئے تھی۔ جب ہم لاہور منتقل ہوئے۔ تو وہ ایک طرف سے کسی کو بیر اتارنے نہ دیتیں کہ یہ میرے بچوں کا حصہ ہے لاہور بھجوانا ہے۔ جب تک وہ زندہ رہیں ہمیں مفت میں سرخ بیر ملتے رہے۔ بیر ، جامن اور کچے آم لاہور آ کر خرید کر کھائے۔ اس سے پہلے تو مفت میں ہی کھاتے۔ کبھی کسی کے گھر سے آ جاتے تو کبھی کسی کے گھر سے۔ماموں شکار کے شوقین تھے وہ جب بھی شکار کر کے آتے تو رات دیر تک انکے گھر محفل سجتی ، لائٹنگ ہوتی وہ خود پکارتے اور شوق سے کھلاتے۔ تیتر ، بٹیر ، مچھلی اور مرغابیاں۔ہم جب تک گاؤں رہے یہ ہی دیکھا پھر ابو کی ٹرانسفر جہاں ہوئی ہم بھی ساتھ ہو لیے۔ لیکن عیدیں وہیں کیں۔سب عیدوں پر وہاں اکھٹے ہوتے۔ پھر نانا نانی کے بعد رونقیں ختم ہو گئیں۔ سب نے بچوں کی شادیاں کر دیں۔ رونقیں ویراں ہو گئیں۔ ہمارے بچے اس خوبصورت ماحول سے بہت دور ہیں‘ ہم تنہاء ہیں اور ہم نے اپنے بچوں کو بھی تنہا ء کر دیا ہے۔
ہم نے اپنے بچوں کو تنہا کر دیا
Oct 18, 2022