عمران خان مزید”خطرے ناک“ کیوں ہوئے۔

دو سے زیادہ مرتبہ اس کالم میں یہ واقعہ لکھ چکا ہوں۔نواز شریف صاحب کی چار برس بعد لندن سے وطن واپسی کے تناظر میں اسے دہرانا ضروری ہے۔ ہوا یہ تھا کہ 2021کے دسمبر میں مسلم لیگ (نون) کے ایک اہم رہ نما کے فرزندکی اسلام آباد کے ایک مشہور ہوٹل میں دعوت ولیمہ تھی۔ میں اس میں شرکت کے لئے مہمانوں سے بھرے ہال میں داخل ہوا تو مسلم لیگ (نون) کے تین کے قریب رہ نما جو 1990سے اپنے حلقوں میں انتخاب میں حصہ لیتے ہوئے ہارتے یا جیتتے رہے ہیں وقفوں سے مجھے ہال سے باہر نکال کر ایک کونے میں لے جاتے رہے۔ لوگوں سے کٹے کنارے میں کھڑے مسلم لیگی سرگوشیوں میں میرے روبرو اصرار کرتے رہے کہ ان کی دانست میں پیپلز پارٹی ایک سازش کے تحت ان کی جماعت کو عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کو ”ورغلا“ رہی ہے۔انہیں یقین تھا کہ اکتوبر2021میں آئی ایس آئی کا سربراہ لگانے کے عمل نے عمران حکومت کو مقتدر حلقوں کے ساتھ ”سیم پیج“ پر رہنے نہیں دیا۔ مذکورہ تناظر میں لہٰذا عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو بآسانی کامیاب بھی ہوجائے گی۔مجھ سے گفتگو کرنے والے رہ نما تاہم اس سوچ کے حامل تھے کہ ان کی جماعت کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔بہتر یہی ہوگا کہ ”عمران خان کو لانے والے“ اب ”موصوف کا اصل“ بھی جان لیں۔مسلم لیگ کونے میں بیٹھ کر ان کے مابین ابھرتے اختلافات سے لطف اٹھائے۔
مجھ سے گفتگو کرنے والے مسلم لیگی شمالی اور وسطی پنجاب میں قومی اسمبلی کے تین اہم حلقوں سے 2018کا انتخاب ہارچکے تھے۔ وہ اپنی جماعت کے فیصلہ ساز حلقوں میں شمار نہیں ہوتے۔ بنیادی طورپر طلبہ سیاست میں چند برس گزارنے کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوکر قومی اسمبلی کے امیدوار نامزد ہوئے تھے۔ ان کا بیشتر وقت اپنے حلقوں ہی میں گزرتا ہے۔انہیں عموماََ ٹی وی سکرینوں پر اپنی جماعت کی حمایت میں خوش کن کہانیاں گھڑنے کے مواقع بھی نصیب نہیں ہوتے۔ میری دانست میں اگر چہ وہ ان سیاستدانوں کے حقیقی نمائندہ ہیں جو عوام کے ساتھ مسلسل رابطے کی بدولت سیاسی حرکیات جبلی طورپر جان لیتے ہیں۔
عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے تصور سے وہ فطری طورپر گھبرائے ہوئے تھے۔انہیں یقین تھا کہ اگر عمران حکومت کو آئینی مدت مکمل کرنے دی جائے تو 2023کا انتخاب لڑنے کے لئے تحریک انصا ف سے پاکستان کے کئی حلقوں میں نام نہاد الیکٹ ایبلز رابطہ ہی نہیں کریں گے۔ پنجاب کا اس تناظر میں خاص طورپر ذکر ہوا جہاں عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کو تحریک انصاف سے بیزار بنانے کا سبب بتائی گئی۔ قصہ مختصر مجھ سے گفتگو کرنے والے مسلم لیگی رہ نما?ں کو یقین تھا کہ اگر عمران حکومت کو آئینی مدت مکمل کرنے دی جائے اور اس کے بعد بروقت انتخاب ہوجائیں تو ان کی جماعت 1997کی طرح ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں لوٹ سکتی ہے۔ 
ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے میں نے ان کے خدشات نہایت غور سے سنے۔قومی اسمبلی کی کارروائی کا مشاہدہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کی صفوں میں اضطراب اور مایوسی میری نگاہوں میں بھی دن بدن عیاں ہورہی تھی۔اس کی وجہ سے میں خود بھی عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا حامی نہیں تھا۔اس سوچ سے مگر متفق نہیں ہوا کہ ”سب پہ بھاری“ تصور ہوتے آصف علی زرداری مسلم لیگ (نون) کو عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لئے ورغلاتے ہوئے سازشی انداز میں ”مقتدر قوتوں کےساتھ مل کر“تباہ کرنا چاہ رہے ہیں۔
2021کے دسمبر میں ہوئی اس گفتگو کے بعد مگر اپریل 2022میں تحریک عدم اعتماد بالآخر پیش ہوکر کامیاب بھی ہوگئی۔ عمران خان اس کے بعد اپنے عہد کے مطابق ”مزید خطرے ناک“ ہوگئے۔ مسلم لیگ (نون) نے مگر دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر بھان متی کا کنبہ دکھتی ایک حکومت بنائی۔اس حکومت نے پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے کے نام پر مسلسل 16مہینوں تک پاکستان کے عوام کو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا رکھا۔مسلم لیگ (نون) کا ووٹ بینک اس کی وجہ سے دق زدہ محسوس ہورہا ہے۔اس کے احیائ کے لئے نواز شریف کو 21اکتوبر کے دن پاکستان لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔
عجب اتفاق یہ ہوا کہ مسلم لیگ کے جن تین رہ نما?ں سے میری دسمبر2021میں ہوئی ایک شادی میں گفتگو ہوئی تھی وہ حال ہی میں ہوئی شادی کی دو تقاریب میں مجھے علیحدہ علیحدہ ملے۔ وہ تینوں اس بار بھی گھبرائے ہوئے تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ ان کے قائد کے خلاف مبینہ طورپر ایک اور ”سازش“ تیار ہوگئی ہے۔ اب کی بار مگر”سب پہ بھاری“ کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ سرگوشیوں میں اشارے ”ا±ن“ کی جانب ہورہے ہیں۔
مجھ سے بات کرنے والے مصر تھے کہ نواز شریف کو چوتھی بار وطن عزیز کا وزیر اعظم ”منتخب کروانے(اور کروانے کے استعمال پر غور کرنا ہوگا)“کا ”جھانسہ“ دیا جارہا ہے۔ان کی فہم کے مطابق نواز شریف صاحب کی وطن آمد کے لئے ”حفاظتی ضمانت“ ہوبھی گئی۔ وہ چند گھنٹے بھی جیل میں گزارے بغیر عدالت کی اجازت سے لاہور پہنچنے کے بعد مینارِ پاکستان کے جلسے سے خطاب کو بھی چلے گئے تب بھی ان کا وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کا راستہ صاف نہیں ہوگا۔ الیکشن کی تاریخ اور شیڈول آگیا تو میاں صاحب نے قومی اسمبلی کے کسی حلقے سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تو ان کے خلاف اعتراضات اٹھائے جائیں گے۔ ممکنہ اعتراضات کی وجہ سے نواز شریف کو قومی اسمبلی کی کسی نشست سے خود کوامیدوار کھڑاہونے کا اہل ثابت کرنے کے لئے طویل قانونی جنگ لڑنا ہوگی۔ اس عمل میں کم از کم 10سے 14مہینے لگ سکتے ہیں۔ نوازشریف فی الفور چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے اہل نظر نہ آئے تو ان کی جماعت کو آئندہ انتخابات میں سادہ اکثریت کے حصول میں بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ ایک بار پھر وفاق اور پنجاب میں مخلوط حکومتوں کی صورت بھگتنا ہوگا جو پاکستان کے دائمی مسائل کے حل کے لئے سخت فیصلے لینے کی سکت سے محروم ہوں گی اور یوں ایک بار پھر مسلم لیگ (نون) کا ”بچا کچھا بھرم“ بھی خاک میں مل جائے گا۔دسمبر 2021کی طرح میں نے ان رہ نما?ں کی گفتگو کو بلاتبصرہ کئے سنا۔ ان کی جماعت کے بارے میں ویسے بھی ان دنوں ”ہم چپ رہے-ہم ہنس دئے“ والا رویہ اختیار کررکھا ہے۔

ای پیپر دی نیشن