آج سے 16سال قبل 18 اکتوبر کی شب محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کراچی میں پیش آنیوالے سانحہ کارساز کی یاد آئی ہے تو ہماری ارض وطن پر دہشت گردی سے منسوب کئی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007ءکے سانحہ کارساز میں خود تو اپنے ٹرک پر ہونیوالے خودکش حملے میں محفوظ رہی تھیں مگر انکے 200 کے قریب جیالے اس سانحہ میں شہید ہوئے اور کتنے ہی زخمی ہو کر آج بھی مجبور اپاہج زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔ اس سانحہ کے دو ماہ بعد محترمہ بے نظیر بھٹو خود بھی لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر جلسہ گاہ سے واپس جاتے ہوئے دہشت گرد حملے کی بھینٹ چڑھیں اور جام شہادت نوش کرکے امر ہو گئیں۔
ہماری ارض وطن پر امریکی سانحہ نائن الیون کے بعد در آئی دہشت گردی نے ملک کے 80 ہزار سے زائد شہریوں کی جانیں لی ہیں جن میں ہماری سکیورٹی فورسز کے دس ہزار جوان اور افسران اور بے نظیر بھٹو کے علاوہ ہمارے درجن بھر دوسرے قومی سیاسی اور دینی قائدین بھی شامل ہیں تو ہمیں اس دہشت گردی کے روٹ کاز کا کھوج لگا کر آج اس سے مستقل خلاصی کیلئے سول اور عسکری قیادتوں کے اٹل فیصلہ کو اسکی روح کے مطابق عملی جامہ پہنانے سے گریز کا کوئی نہ کوئی عذر نکالنے کی کوشش تو نہیں کرنی چاہیے۔ خودکش حملوں والی دہشت گردی کی بنیاد تو ہماری ارض وطن پر آج سے 46 سال قبل امریکہ کی سوویت یونین کے ساتھ چھیڑی گئی سرد جنگ کے دوران پڑی تھی جب اس وقت کے چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ضیاءالحق نے خدائی خدمت گار بن کر اس جنگ میں امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور سوویت یونین پر گوریلا حملوں کیلئے افغان مجاہدین کی سرپرستی کرکے انہیں متحرک کیا۔ اسکے ردعمل میں سوویت یونین نے اسی طرح افغان دھرتی کو اپنے ہدف پر رکھا جس طرح سانحہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان کا تورابورا بنانے کی ٹھانی تھی۔
افغان دھرتی پر سوویت یونین اور امریکی نیٹو فورسز کی جانب سے چھیڑی گئی ان دونوں جنگوں میں کمبختی تو پاکستان کی آئی جو ان دونوں جنگوں میں امریکی فرنٹ اتحادی تھا۔ 70ءکی دہائی والی سرد جنگ کے دوران پاکستان کا عنان اقتدار جنرل ضیاءالحق کے ہاتھ میں تھا اور 2001ءکے سانحہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں شروع کی گئی امریکی نیٹو فورسز کی جنگ کے وقت ہمارے کمانڈو جرنیل پرویز مشرف مسند نشین تھے جنہوں نے اس وقت کے امریکی نائب وزیر دفاع رچرڈ آرمٹیج کی محض ایک ٹیلی فونک دھمکی پر پاکستان کو امریکی مفادات کی اس جنگ میں جھونک دیا۔ 70ءکی دہائی والی سرد جنگ کے دوران بھی لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندے مہاجر بن کر پاکستان میں داخل ہوگئے اور نیٹو فورسز کے افغانستان پر دھاوے کے موقع پر بھی پاکستان پر افغان مہاجرین کا مزید بوجھ پڑ گیا۔ ہمارے مفادات کے حوالے سے ان دونوں جنگوں میں فرق یہ تھا کہ سرد جنگ میں پاکستان افغان مہاجرین کی پشت پر کھڑا تھا اور انہیں ہر قسم کی جنگی سازوسامان والی سپورٹ فراہم کررہا تھا چنانچہ افغان مجاہدین ہمارے ساتھ جذبہ اخوت و بھائی چارہ کے بندھن میں بندھے ہوئے تھے۔ اسی تناظر میں ہم نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے عہد اقتدار میں افغانستان میں قائم ہونیوالی طالبان حکومت کو بھی تسلیم کیا اور عالمی فورموں پر اسکے حق میں آواز اٹھائی۔ اس وقت امریکہ کیلئے بھی طالبان ”نیلی آنکھوں“ والے بچے تھے جن پر ہر قسم کی عنایات ہو رہی تھیں مگر امریکی نائن الیون کے بعد حالات یکسر بدل گئے۔ امریکہ نے اپنے ہی پروردہ اسامہ بن لادن اور طالبان کو اس سانحہ کا مجرم قرار دیا اور افغان دھرتی پر اپنے نیٹو حلیف 48 ممالک کی افواج کے ساتھ چڑھائی کر دی۔ اس منظرنامے میں ہمارا کردار تو امریکی اتحادی والا ہی رہا مگر نیٹو فورسز کی مزاحمت کرنیوالے افغان باشندوں کیلئے ہمارا سٹیٹس تبدیل ہو گیا۔ چنانچہ انکے ساتھ ہمارا اخوت و بھائی چارے والا تعلق ڈھیلا پڑا تو انہوں نے امریکہ ہی کی طرح ہمیں بھی اپنا دشمن گردان لیا۔ نیٹو فورسز ہماری فراہم کردہ لاجسٹک سپورٹ کی بدولت افغان دھرتی کے بخیئے ادھیڑ رہی تھیں اور اسکے ردعمل میں طالبان نے پاکستان کے اندر خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کر دیا جس سے بڑی دشمنی تو ہمارے ساتھ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
ہمارے اس وقت کے حکمرانوں کو تو صرف اس بنیاد پر ہی سالہا سال سے ہماری سرزمین پر مہاجر بن کر بیٹھے افغان باشندوں کر انکے ملک واپس بھجوانے کی باعمل پالیسی طے کرلینی چاہیے تھی مگر انہوں نے ایسا سوچنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی اور مہاجرین کا روپ دھارے بیٹھے طالبان کے ہاتھوں دہشت گردی اور خودکش حملوں کے ذریعے اپنی دھرتی کو معصوم و بے گناہ شہریوں کے خون سے نہلاتے رہے۔ اسکے برعکس ان مہاجرین کے پاکستان میں تو وارے نیارے رہے جنہوں نے یہاں مافیاز اور قبضہ گروپوں کی شکل اختیار کرکے ناجائز کاروبار بھی کئے۔ مختلف سنگین جرائم میں بھی ملوث ہوئے حتیٰ کہ انکی اکثریت نے ہمارے مختلف محکموں کے لوگوں کے ساتھ ملی بھگت کرکے پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک حاصل کرلئے۔ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 46 سال کے دوران ہمیں اپنے شہریوں کی زندگیوں اور معیشت کو پہنچنے والے کتنے بھاری نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔ انکی پشت پر کھڑے ضیاءالحق اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو بھی تو انہی افغان باشندوں کی پھیلائی اسی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھیں اور ناشکری کی انتہاءیہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہماری جانب سے شروع کرائے گئے امن عمل کی بدولت طالبان کی کابل حکومت میں واپسی کے بعد بھی ہماری دھرتی کو دہشت گردی کے ذریعے اجاڑنے میں انہی افغانیوں کا سب سے بڑا عمل دخل ہے جو آج پاکستان کی خودمختاری کو بھی تضحیک کا نشانہ بناتے ہوئے اسکی سلامتی کھلم کھلا چیلنج کررہے ہیں۔ افغانیوں کی ان قبیح حرکات کے باعث ہی رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں نے قومی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں یکسو ہو کر پاکستان میں غیرقانونی طور پر آباد افغان مہاجرین کو انکے ملک واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کیخلاف بھی سب سے پہلا ردعمل کابل کی طالبان حکومت کی جانب سے ہی آیا۔
مہاجرین کے انخلاءکی ڈیڈ لائن رواں ماہ کی آخری تاریخ 31 اکتوبر ہے جس کے بعد پاکستان نہ چھوڑنے والے مہاجرین کے یکم نومبر سے ریاستی مشینری کے ذریعے زبردستی انخلاءکا مرحلہ شروع ہونا ہے۔ یقیناً اس عمل کے ردعمل میں ہتھیار بند مہاجرین کی جانب سے مزاحمت کا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے جس میں انہیں ہمارے روز اول کے دشمن بھارت کی معاونت اور سرپرستی حاصل ہو سکتی ہے اور یہی وقت ریاستی اتھارٹی اور ملک کی خودمختاری کو تسلیم کرانے کا ہے۔
میں تو اس حوالے سے رجائیت پسندی سے لبریز ہوں کہ افغان مہاجرین کے پاکستان سے مستقل انخلاءکے بعد ہماری دھرتی پرامن بھی مستقل بنیادوں پر واپس لوٹ آئیگا اور ہماری معیشت کو چمٹی ان جونکوں کے چھٹ جانے سے ملک میں معاشی استحکام اور خوشحالی کی بنیاد بھی مستحکم ہو جائیگی۔
پھر اس عمل میں اب کسی مصلحت، کسی عذر اور کسی مجبوری کو تو ہرگز آڑے نہیں آنے دینا چاہیے اور ان مہاجرین کو ملک کی دھرتی پر بدستور ٹھہرائے رکھنے کے راستے تو نہیں نکالے جانے چاہئیں۔ مگر حکومتی ترجمانوں کی وضاحتیں میری رجائیت پسندی کو ڈگمگا رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ مہاجرین کو نہیں‘ غیرقانونی طور پر مقیم مہاجرین کو نکالا جا رہا ہے۔ جناب! اس وضاحت کے ساتھ ذرا یہ وضاحت بھی فرما دیں کہ گزشتہ 46 سال سے جو افغان مہاجرین ہماری معیشت پر بوجھ بنے ہوئے اور یہاں دہشت گردی پھیلانے میں معاون بن رہے ہیں وہ ہمارے ملک کے کس قانون کے تحت یہاں آباد ہیں اور کس قانون کے تحت یہاں جائیدادیں بنا اور کاروبار کر رہے ہیں۔ ہمارا شہریت ایکٹ تو کسی غیرملکی باشندے کو ہرگز یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے ملک کی شہریت چھوڑے بغیر پاکستان کی شہریت بھی حاصل کرلے۔ ترجمان حضرات کو قوم کو یہ بھی تو بتانا چاہیے کہ جن افغان مہاجرین کو وہ قانونی طور پر مقیم مہاجر ٹھہرا رہے ہیں کیا انہوں نے افغانستان کی شہریت چھوڑ کر پاکستان کی شہریت حاصل کرلی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ان کا پاکستان میں ایک شہری کی حیثیت سے قیام قانونی کیسے ہو گیا۔ حضور، اب دوغلی پالیسی سے کام نہیں چلے گا‘ جو پاکستان کے شہری نہیں اور بغیر ویزے یہاں عرصہ دراز سے مقیم ہیں انہیں اب ان کے ملک واپس بھجوانا ہوگا ورنہ انکے ہاتھوں پاکستان کا امن مستقل طور پر یرغمال بنا ہی رہے گا۔