آج ملک میں قومی یکجہتی کے جذبوں کو پروان چڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔مجھے پاک فضائیہ کے دلیر اور بے خوف ہوا باز سیسل چوہدری بری طرح یا دآ رہے ہیں۔میں نے ان کی یاد میں ایک بے ساختہ تحریر لکھی ،اسے قارئین کے مطالعے کیلئے پیش کر رہا ہوں۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بہار کا آسمان راتوں کو اچانک رونے کیوں لگتا ہے۔پھر اچانک میں نے ایک سنگل سطری خبر پڑھی کہ 65ءکی جنگ کے ہیرو گروپ کیپٹن سیسل چودھری کی زندگی بچانے کے لئے لاہور کے فوجی ہسپتال میں ان کو مشینوں پر منتقل کر دیا گیا ہے اور محض چوبیس گھنٹے کی کشمکش کے بعد وہ زندگی کی بازی ہار گئے، گزری رات لاہور کا آسمان پھر رو دیا۔لاہور کی جیل روڈ اور ظفر علی روڈ کے سنگم پر واقع گورا قبرستان ہمیشہ پھولوں کی مہک سے لبریز دکھائی دیتا ہے مگر 15اپریل کو اس میں ایک سدا بہار پھول کا اضافہ ہوا،جس نے گورا قبرستان کو ایک نئی پاکیزگی، ایک نیا تقدس اور ایک نیا احترام بخشا ہے۔اس پھول کے رنگوں سے لاہور ہی نہیں ، پورا وطن قوس قزح کے رنگوں میں نہا گیا ہے۔
ہمارے بزرگ صحافی دوست ایف ای چودھری وہیل چیئر پر آخری رسومات میں شریک ہوئے۔ سیسل کی تین بیٹیاں ، مشعل، کیرول ، میرین اور دو بیٹے، سیسل ایس چودھری اورایان ایلڈرڈ بھی اپنے عظیم باپ کی میت کے سرہانے سر جھکائے کھڑے تھے۔لیکن وہ نہیں جانتے کہ ان کے باپ نے ان کو کس قدر سر بلند کر دیا ہے۔مجھے صرف اس بات پر فخر ہے کہ میں نے نوسال قبل اس عظیم انسان سے چند منٹ تک ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی۔سیسل چودھری ستارہ جرات 65ءکی جنگ کے ہیرو کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔جب بھی چھ ستمبر کے پاکیزہ لمحات کا ذکر ہو گا ، تو سیسل چودھری کا اسم گرامی اس شاہنامے کے صفحات میں سنہری حروف میں چمکے گا۔سیسل چودھری اس فارمیشن کا حصہ تھے جس نے چار جہازوں کے ساتھ اسکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی کی قیادت میں ہلواڑہ کے بھارتی اڈے کو تہس نہس کرنا تھا۔آخری لمحات میں ایک جہاز اڑان نہ کر سکا چنانچہ باقی تین جہاز اس مشن پر روانہ ہوئے جو انتہائی دشوار تھا، اس لئے کہ چوتھے جہاز کی مرمت میں مصروفیت کی وجہ سے روانگی میں ایک گھنٹے کی تاخیر ہو گئی تھی،اس دوران میں ہماری ایک فارمیشن پٹھانکوٹ کے بھارتی اڈے کی اینٹ سے اینٹ بجا چکی تھی۔اسکواڈرن لیڈر رفیقی ، فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری اور فلائٹ لیفٹننٹ یونس حسن جب دشمن کی فضائی حدود میں داخل ہوئے تو پٹھان کوٹ کے معرکے سے واپس آنے والے فارمیشن نے انہیں خبردار کیا کہ دشمن کے ہنٹر طیارے بڑی تعداد میں فضا میں موجود ہیں۔مگر خلاف توقع ہلواڑہ کی طرف محو پرواز تینوں سیبر طیاروں کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاریکی تیزی سے پھیل رہی تھی ، ہمارے جہاز صرف پندرہ سو فٹ کی بلندی پر تھے، انہیں زمین پر کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
قاعدے کے مطابق انہیں پینتیس سو فٹ کی بلندی سے دشمن پر وار کرنا تھا۔انہوں نے حملے کی پوزیشن اختیار کی ، سیسل چودھری کا جہاز زمین سے دو سو فٹ بلند تھا کہ انہیں دشمن کا ایک ٹرانسپورٹ طیارہ نظر آیا ، انہوں نے اپنے لیڈر کو اس کے بارے میں بتایا۔ سیسل کے وائرلیس سیٹ پر لیڈر کی ہدائت موصول ہوئی کہ اسے بھول جاﺅ، ہمیں اس سے بہتر نشانے ملیں گے۔مگر اگلے پانچ منٹ تک وہ دشمن کی فضا میں چکر کاٹتے رہے، اندھیرا چھا جانے کی وجہ سے انہیں زمین پر کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب جنگی جہاز، جدید دور کی نیوی گیشن کی سہولتوں سے لیس نہ تھے اور کاک پٹ میں بیٹھے، ہوا باز کو اپنی آنکھوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔سیسل چودھری نے ایندھن کے فالتو ٹینک زمین پر گرا دیئے، رفیقی نے حسن کو ہدائت کی کہ وہ ابھی اپنے فالتو ٹینک نہ گرائے، رفیقی کو اندیشہ تھا کہ جنگ طول پکڑ گئی تو پاک فضائیہ کو فالتو ٹینکوں کی زیادہ سے زیادہ ضرورت پڑے گی۔اسی دوران میں سیسل کے کاک پٹ میں وائرلیس سیٹ پر رفیقی کی آواز گونجی: دو ہنٹر، بارہ بجے کی بلندی پر،ان پر نظر رکھیں۔اس وقت سیبر جہاز سیدھی اڑان میں تھے اور ان کی بلندی سو سے ڈیڑھ سو فٹ تک تھی۔یونس کی آواز آئی: لیڈر، ہمیں ان کو نشانہ بنانا چاہئے۔رفیقی نے جواب دیا: ٹھیک ہے، سیسل، آپ بائیں والے کو نشانے پر لو اور میں دائیں والے سے نبٹتا ہوں۔ڈاگ فائٹ کے دوران یونس اور سیسل اپنے لیڈر کے عقب میں دائیں بائیں گھومتے رہے۔ رفیقی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون ، کس جانب ہے جبکہ اس کی کمان میں دونوں ہوا بازوں کی توجہ ایک ہی نکتے پر مرکوز تھی کہ وہ جان پر کھیل کر اپنے کمانڈر کی حفاظت کریں گے۔یونس نے اس دوران تجویز پیش کی کہ لیڈر بائیں والے ہنٹر کو نشانہ بنائے اور وہ دائیں والے پر جھپٹے گا۔سیسل نے وائرلیس پر کہا ، ایلفا ، تمہارا عقب کلیئر ہے ، فائر کرو۔سیسل نے دیکھا کہ بائیں جانب والاھنٹر آگ کے شعلے میں تبدیل ہو کو نیچے گر رہا ہے۔یونس نے ابھی تک فائر نہیں کھولا تھا ، رفیقی پوچھنے ہی والا تھا کہ یونس نے ایکشن کیوں نہیں لیا کہ سیسل کی آواز گونجی:دو مزید ھنٹر سامنے آگئے ہیں۔رفیقی نے ہدائت دی: ان کو الجھاﺅ۔سیسل کی پھر آواز گونجی: بائیں طرف سے دو اور ھنٹر آگئے ہیں اور انکے پیچھے دو اور طیارے ہیں۔رفیقی نے کہا: راجر، میرا عقب کلیئر رکھو۔اس وقت تین اور ایک کا مقابلہ تھا لیکن کمانڈر انتہائی پر اعتماد تھا۔دشمن کی سر زمین پر لڑائی ہو رہی تھی اور سارا شہر اپنی ایئر فورس کے پٹنے کا منظر دیکھ رہا تھا۔ اس اثنا میں یونس دوسرے ہنٹر کا پیچھا کرتے ہوئے ان سے الگ ہو گیا۔ابھی تک یونس اور رفیقی نے ایندھن کے فالتو ٹینک نہیں گرائے تھے۔رفیقی دو ہنٹروں کے پیچھے آچکا تھا، اس نے فائر کھولا لیکن، میرے خدایا۔۔ اس کی گنیں جام ہو چکی تھیں۔رفیقی کی آواز گونجی: سیسل، میری گنیں کام نہیں کررہیں، اب تم کمان سنبھالو۔اس وقت تک تاریکی گہری ہو گئی تھی،گنیں جام تھیں اور جنگی اصولوں کے تحت رفیقی کو واپسی کی راہ لینا چاہئے تھی لیکن اس صورت میں یونس پیچھے اکیلا رہ جاتااور وہ دشمن کے نرغے میں آکر آسانی سے شکار ہو سکتا تھا۔سیسل ، اپنے جہاز کو اگلی پوزیشن میں لے جا چکا تھا کہ یہ اسکے کمانڈر کا حکم تھا۔اس نے دیکھا کہ بائیں جانب چار ہنٹر ہیں اور دائیں جانب دو ھنٹر۔رفیقی کی آواز گونجی: تمہارا عقب کلیئر ہے۔ سیسل دائیں جانب کے دو ہنٹروں پر حملہ آور ہو چکا تھا۔پہلا ہنٹر دم دبا کر بھاگ نکلا لیکن دوسرا ہنٹر نشانے پر آگیا۔اسکے پائلٹ نے جان بچانے کے لئے کاک پٹ سے چھلانگ لگا دی۔سیسل نے اپنے ساتھیوں کو پکارا مگر اسے کوئی جواب نہ ملا۔ وہ ابھی تک سو سے ڈیڑھ سو فٹ کی بلندی پر تھا ، چند لمحوں کےلئے اسے اپنے ارد گرد کچھ نظر نہ آیا ، پھر اسے محسوس ہوا کہ دو ہنٹر طیارے اس پر فائر کھول چکے ہیں۔سیسل نے غوطہ لگایا۔ دونوں ہنٹر اس کے اور زمین کے درمیان سینڈ وچ ہو چکے تھے۔اگلا جہاز اسکے نیچے سے نکل گیا لیکن دوسرا جہاز زمین کے بہت قریب تھا، وہ ڈگمگا نے لگا۔ سیسل نے اپنا جہاز اوپر اٹھایا، جہاز کی رفتار کم کر کے اسے ایک سو بیس ناٹ پر لے آیا۔ حسب توقع ہنٹر بھی اوپر اٹھا اور عین اس کے سامنے آگیا، سیسل نے ٹریگر دبایا۔ ھنٹر آگ کے شعلوں میں تبدیل ہو گیا، سیسل آگ کے اس مرغولے کو چیرتا ہو اوپر اٹھا۔ اسے رفیقی نظر نہیں آرہا تھا، اچانک اس نے دیکھا کہ ایک سیبر اور ہنٹر قینچی کی طرح ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں سیبرنے فائر کھولا اور ہنٹر منہ کے بل زمین پر آن گرا۔ یونس بہت اچھا نشانہ باز تھا ، سیسل نے وائرلیس پر پوچھا : کیا تم نے ہنٹر مار گرایا ہے۔ یونس نے اثبات میں جواب دیا۔سیسل نے کہا۔ تمہارے پیچھے دو اور ہنٹر آگئے ہیں۔
سیسل نے محسوس کیا کہ یونس کا طیارہ ہٹ ہو گیا ہے۔اسے آگ لگ چکی تھی، سیسل نے کئی مرتبہ یونس کو پکارا،اس اثنا میں دو ہنٹر فضا میں نمودار ہوئے ، سیسل نے ایسی پوزیشن اختیار کی کہ ھنٹر اسے نہیں دیکھ سکتے تھے۔اس نے ان کا پیچھا کیا۔ ہنٹر دب دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے، ہلواڑہ کی سرزمین، پانچ ہنٹرز کے قبرستان میں تبدیل ہو گئی تھی، سیسل کا کمانڈر رفیقی اور ساتھی یونس بھی شہید ہو چکے تھے، اس سانس روک دینے والے معرکے کی تفصیلات یہاں ختم نہیں ہوتیں، یہ 1971 کی جنگ تک محیط ہیں لیکن اس شاہنامے کا ہیرو آخری سانس لے چکا ہے ، وہ لاہور کے گورا قبرستان میں ابدی نیند سو رہا ہے، چھ ستمبر کے معرکے میں اس نے اپنے سے چار گنا بڑی فضائی قوت کو للکارا تھا، اس کی للکار سے دشمن آج تک مبہوت ہے اور میں گورا قبرستان کے سامنے سانس روکے ، سر جھکائے کھڑا ہوں ، پاکستان کے ایک سچے سپاہی کے سامنے میرا سر عجز و نیاز سے جھکا ہوا ہے۔اسکے زندہ جاوید کارناموں کو سلام، اس کی جیتی جاگتی روح اور اسکے انمٹ جذبوں کو سلام!