جدید دور میں بامقصد گفتگو اور مکالمے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی عقل و دانش کو ادارہ جاتی اہمیت دینے کے لیے تھنک ٹینک کا تصور عام ہوا اور یہ تصور گذشتہ سو سال میں ارتقائی مراحل سے گذرا۔
علم و دانش کی روایت کی رو سے تھنک ٹینکس کسی بھی ملک میں دانش کدے کی حیثیت رکھتے ہیں اور پاکستان میں جہاں سرکاری سرپرستی اور نجی اعانت سے چلنے والے دانش کدے موجود ہیں ایک دانش کدے صنوبر انسٹیٹیوٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اِس دانش کدے کی تخلیق ایک ادب نواز کہنہ مشق سفارت کار اعزاز احمد چوہدری کی تخلیقی مشقت کا ثمر ہے۔ اعزاز احمد چوہدری سیکریٹری خارجہ اور پاکستان کے ایک اہم اور قدیم ترین تھنک ٹینک کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ جیسا کہ میں ذکر کیا کہ اعزاز چوہدری ایک ادب نوازشخصیت ہیں اِس لیے انھوں نے اِس ادارے کا پاکستان کے قومی شاعر ڈاکٹر محمد اقبال کی شاعری سے مستعار لیا ہے۔
تھنک ٹینکس کے تصور کا حوالہ 19ویں صدی کے اوائل میں ملتا ہے جب برطانیہ میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ (RUSI) کا قیام عمل میں آیا اور ریاستہائے متحدہ میں بروکنگز انسٹیٹیوٹ ظہور پذیر ہوا۔شروع میں تھنک ٹینکس دفاع اور سلامتی سے متعلق تحقیق پر مرکوز تھے لیکن دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پرتھنک ٹینکس کا تصور وسیع ہوا اور قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور اقتصادی ترقی جیسے معاملات تحقیق شروع کی گئی۔ 20ویں صدی کے وسط میں کچھ تھنک ٹینکس نے اپنے نظریاتی رجحانات کا پرچار کیا، کچھ نے آزاد نظریہ تحقیق کو اپنایا اور کچھ سیاسی اور معاشی نظریات کی نمائندگی کرنے لگے۔ 20ویں صدی کے آخر میں جب تھنک ٹینک کا تصور عالمی سطح پر وسعت پذیر ہوا تو صحت سے لے کر تعلیم اور ماحولیاتی خدشات سے لے کر ملکی پالیسی تک جامع تحقیق شروع ہو ئی۔ اسی دوران تھنک ٹینکس صرف تحقیق کرنے تک محدود نہ رہے بلکہ ایک خاص نکتہِ نظر کے پرچار اور پالیسی کو فروغ دینے کے لیے بھی کام کرنا شروع ہوگئے۔ آج بہت سے تھنک ٹینکس تحقیق، پالیسی سفارشات، اور تجزیہ کے ذریعے عوامی رائے اور حکومتی فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
آج کی دنیا میں تھنک ٹینک کے چار واضح مقاصد ہو سکتے ہیں:تحقیق ،مکالمہ، عمومی بیداری اور پالیسی سفارشات۔ تھنک ٹینکس ماہرین، محققین اور پالیسی سازوں کے درمیان خیالات اور نقطہ نظر کے تبادلے کے لیے پل کا کام کرتے ہیں۔ جب تھنک ٹینک کا تصور ذہن میں آتا ہے تو تحقیق پہلا عنصر سمجھ آتا ہے کہ کسی بھی مکالمہ سے پہلے تحقیق لازم ہے ورنہ مکالمہ کا مقصد واضح نہیں ہو پائے گا۔ تحقیق میں دنیا بہت آگے کا سفر کر چکی ہے اور ایسے ذرائع میسر ہیں جو جامع تحقیق میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ تھنک ٹینک میں مکالمے کا مقصد کثیر جہتی ہے اوریہ اکثر پیچیدہ سماجی، اقتصادی، سیاسی اور عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہوتا ہے۔ مکالمہ ذہن سازی، تخلیقی سوچ، اور پیچیدہ مسائل کے حل کی تلاش کا اہم ذریعہ ہے۔ تھنک ٹینکس اکثر موضوعات پر وسیع البنیاد تحقیق کرتے ہیں اور پھر مکالمہ سے بھی نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ تحقیقی طریقہ کار پر بحث اور اعداد و شمار کا تنقیدی تجزیے کے لیے مکالمہ ضروری ہے اور یہ عمل تحقیقی نتائج میں حصہ ڈالتا ہے۔ مکالمہ ماہرین کے لیے علم، بصیرت اور مہارت کا اشتراک کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔ مکالمہ مستقبل کے ممکنہ چیلنجوں اور مواقع کے لیے مختلف منظرناموں اور حکمت عملیوں کی ترقی میں مدد کرتا ہے اور مسائل کی اجتماعی تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص ہر ایک مسئلے پر اپنی رائے کا حامل ہوسکتا ہے۔ ڈائیلاگ کے ذریعے ماہرین اور پالیسی سازوں کی شمولیت سے اِس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ پالیسی مستند اور عملی ہو۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں مختلف نقطہ نظر کے حامل لوگ ہوں اور کثیر تعداد میں اسٹیک ہولڈرز ہوں، مکالمہ اتفاق رائے کو فروغ دیتا ہے۔ مکالمہ تحقیقی نتائج اور سفارشات کو وسیع تر سامعین تک پہنچانے کے ایک ذریعہ کے طور پر کام کرتا ہے جس سے عمومی اور اجتماعی بیداری بھی ممکن ہے۔ دنیا مسلسل ترقی کر رہی ہے اور تھنک ٹینکس خود کو نئے زاویوں کے مطابق ڈھال رہے ہیں اور تھنک ٹینکس پالیسی کے تجزیے اور تشکیل میں ایک اہم اسٹیک ہولڈر بنتے جا رہے ہیں۔مختصر یہ ہے کہ تھنک ٹینک کی سطح پر تحقیق اور مکالمے کا مقصد فکری کھوج، خیال کی تطہیر، اور شواہد پر مبنی حل کی تخلیق ایک باخبر، لچکدار معاشرے اور پالیسی سازی کے لیے بہت ضروری ہے۔
اعزاز چوہدری ایک قابل اعتماد، غیر جانبدار پلیٹ فارم قائم کرنے اور اہم قومی موضوعات پر مکالمے کو فروغ دینے کے لیے پرعزم اور کوشاں نظر آتے ہیں۔صنوبر انسٹیٹیوٹ پاکستان اور وسیع تر جنوبی ایشیائی خطہ کو متاثر کرنے والے عوامل کو اہمیت دیتا نظر آتا ہے اِسی لیے ادارے کے مقاصد میں جیو پالیٹکس ، جیو اکنامکس، گورننس اور ماحول سے متعلق تحقیق اور ترویج شامل ہیں۔اعزاز چوہدری ادارے کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کامشن مکالمے کو عمل میں، سوچ کو پالیسی میں، اور تحقیق کو موثر حل میں تبدیل کرنا ہے۔ وہ جمود پر سوال اٹھانا چاہتے ہیں اور روشن مستقبل اور مساوی معاشرے کی تشکیل کے لیے جدت اور تخلیقی صلاحیتوں کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ان کی بصیرت محض سطحی مشاہدات نہیں ہیں بلکہ وہ جامع تحقیق اور تجزیے سے ملک کو درپیش پیچیدہ مسائل کے حل کی تجاویز دنیا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر علم قابلِ اطلاق اور قابلِ عمل نہیں ہے تو کیا فائدہ ہے؟ یعنی جس علم سے منفعت نہ ہو وہ کس کام کا؟ ان نے اِس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ ان کے ادارے کے زیرِ انتظام ہونے والی سرگرمیوں میں اِس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تمام سرگرمیاں عصری چیلنجز کے جامع حل سے متعلق ہوں۔ادارے کے مقاصد کے حصول کے لیے غیرجانبداری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور غیرجانبدارانہ اعداد و شمار پر مبنی بصیرت فراہم کرنے کے لیے غیر جانبداری کو برقرار رکھا جائے گا۔ اور اِس ضمن میں ڈیٹا اکٹھا کرنے اور تجزیہ کرنے میں جدید ترین ٹیکنالوجیز اور طریقہ کار استعمال کیا جائے گا۔ اور اِس کاحل کلیدی مسائل کے مکمل، معروضی اور غیر جانبدارانہ تجزیہ پر مبنی ہے۔ ان کامقصد ایسی سفارشات فراہم کرنا ہے جنہیں میکرو پالیسی ریفارمز سے لے کر مائیکرو لیول تک کی عملداری تک بڑھایا جا سکے اِس کے لیے دنیا میں رائج بہترین طریقوں سے سیکھا جا سکتا ہے اور انہیں مقامی سیاق و سباق کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے اور یہ سب ممکن ہے۔
یہ بہت خوش آئند اور اہم ہے کہ اعزاز چوہدری جیسے محب ِ وطن اور عقل و دانش کے حامل لوگ فکری میدان میں اتریں اورپاکستان کو درپیش فکری مغالطوں اورپاکستان کے لیے موجود ان گنت آپشنز پر مکالمے کا آغاز کریں۔ کہ لوگ دہائیوں سے فکر پر پڑی دھند کے چھٹ جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔