ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ پاکستان کو کون چلا رہا ہے؟؟؟
بچپن میں مطالعئہ پاکستان کا رٹّا لگاتے ہو ئے بہت سی خوش فہمیاںوجود میں سما گئی تھیں۔ ایک تو یہی کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس میں اجناس قیامت تک ختم نہیں ہو گی۔ پانی تین صدےوں تک کم نہیں ہو گا۔ گندم اور کپاس کے اتنے ذخائر ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک منتیں کر کے ہم سے گندم کپاس چینی مالٹے سیب انگور آم چاول دالیں سبزیاں خریدتے ہیں۔ پاکستان میں چمڑا وافر مقدار میں پاتا جاتا ہے (کےونکہ کروڑوں عوام کی چمڑی اُدھےڑی جاتی ہے) ۔ اسی طرح ساری زندگی مطا لعئہ پاکستان میں یہی پڑھایا جاتا رہا کہ پاکستان معدنیات کے لحاظ سے ایک منفرد اور خوش نصیب ملک ہے۔ پاکستا ن میں قدرتی گیس کے اتنے زیادہ ذخائر ہیں جو رہتی دنیا تک ختم نہیں ہو سکتے۔ لوہا، پےتل، تا نبا، جپسم، نمک، پتھراور رےت مٹی چونا اتنا زیادہ ہے کہ اگر ہماری سو نسلیں بھی استعمال کریں تو اُن میں کمی واقع نہیں ہو سکتی۔۔ مطالعہ پاکستان میں یہ بھی بتا یا گیا تھا کہ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ اعلیٰ کوالٹی کے ڈیم ہیں۔ قیمتی نوادرات ہیں جن کی مالیت کا اندازہ بھی نہیں لگا یا جا سکتا۔ پاکستان میں سونے اور ہےر ے کی کانیں ہیں۔ گندم ،چاول ،گنا ،پٹ سن، مالٹے آم انگور میں پاکستان ایشیا میں ہی نہیں، یورپ میں بھی پہلے نمبر پر ہے۔ مطا لعہ پاکستان میں یہ بھی بتا یا گیا تھا کہ آئین پاکستان دنیا کا طاقتور ترین آئین ہے جس کا کو ئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ پھر قائد اعظم کے چودہ نکات یاد کرتے کرتے ناک میں دم آ جاتا تھا لیکن یہ نکات قائد اعظم نے پیش کئے تھے۔ اس لیے مشکل ہونے کے با وجود رٹا لگا کر دس میں سے دس نمبر لیتے تھے۔ بڑے ہونے پر پتہ چلا کہ ان نکات میں کوئی نکتہ وطن عزےز میں لاگو نہیں ہے۔ جس گندم کے ذخائر کی بات کی جاتی ہیں۔ وہ گندم اسقدر مہنگی ہے کہ دنیا کے ڈےڑھ سو ممالک میں گندم کی قیمت ہماری گندم سے کم ہے۔ جن آموں ، مالٹوں اور انگوروں کی پیداوار بہتات میں ہونے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ وہ اس ملک میں بمشکل تیس فیصد لوگوں کو نصیب ہے ورنہ انکی اتنی زیادہ قیمتیں ہیںکہ غریب تو کیا متوسط بلکہ امیر آدمی بھی خریدتے ہو ئے گھبراتا ہے۔ پاکستان میں تمام پھل چاندی کے بھاﺅ بکتے ہیں جبکہ سبزیاں تا نبے اور پیتل کے بھاﺅ بکتی ہیں۔ ہرا دھنیا،پودینہ، ہری مرچ تک پیسوں سے خریدنی پڑتی ہیں۔ ٹائل، پتھر بلکہ پلاسٹک تک چین سے خریدتے ہیں۔ بجلی کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سال ہے جب عوام نے بجلی کے بلوں کے خوف سے شدید گرمی حبس اور قہر آلود موسم میں اے سی، کولر، پنکھے تک نہیں چلائے۔ کنال دو کنال اور چار کنال کے گھروں میں شام سے الو بولنے لگتے تھے کےونکہ لوگ مشکل سے دو یا تین بلب جلاتے تھے۔ ساری زندگیاں ہمیں یہ پٹیاں پڑ ھائی گئیں کہ پاکستان چمڑے ، کپاس اور پانی میں خود کفےل ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ ہم نے پاکستانےوں کو چمڑے کے مقابلے میں ریکسین اور پلاسٹک کی جوتیاں پہنے دیکھا ہے۔ چمڑے کی جیکٹوں کی جگہ آرٹےفیشل لیدر، وولن اور کپڑے یا پلاسٹک نما جیکٹیں پہنے دیکھا ہے۔ بڑے بڑے امیر لوگوں کو مُنہ چھپا کر لنڈے سے کپڑے خریدتے دیکھا ہے۔ مطالعہ پاکستان میں یہی بتا یا جاتا رہا کہ پاکستان میں کپڑا بنانے کی بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں جہاں دنیا کا بہترین اور سستا کپڑا تیا ر کیا جاتا ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ ایک تنخواہ میں آپ اپنی پوری فیملی کو دو دو سوٹ بھی نہیں دلوا سکتے۔ ایک عام سا سوٹ پانچ سے دس ہزار میں آتا ہے جس کے کپڑے رنگ کوالٹی کی کوئی گا رنٹی نہیں ہوتی۔ سال کے بعد وہ کہیں باہر پہننے کے لائق نہیں ہوتا۔ کپڑا اتنا نا قص ، کمزور اور مرےل ہوتا ہے کہ چار بار دُھلنے کے بعد ڈسٹنگ کے لائق رہ جاتا ہے۔ رہ گئی سوئی گیس۔۔۔تو ابھی چار دن پہلے خبر چلی کہ گیس کے نرخ دو سو فےصد بڑھائے جا رہے ہیں۔ یہ پاکستانےوں کی زندگی کا منحوس ترین سال ہے کہ ایک سال میں گیس کی قیمتیں سات مرتبہ بڑھانے کے بعد سر پر بم گِرا دیا ہے جبکہ شام کے بعد گیس ہو تی ہی نہیں۔ لوگ اس سے پہلے گھر کی چےزیں، بےوی کے زیور، قیمتی اشیاءاور پوری تنخواہ دیکر بجلی کے بلِ بھر رہے تھے۔ اب گیس کے بل کہاں سے ادا کریں گے۔ سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی گیس مہنگی کی جارہی ہے تا کہ لوگ نہ گےزِر چلا سکیں نہ ہےٹر چلا سکیں اور نہ کھانا پکا سکیں۔ دو دن قبل پٹرول چالیس روپے سستا کر کے بہت بلےّ بلےّ ہو رہی ہے۔ عوام کو کئی سالوں سے جس طرح چونا لگا یا جا رہا ہے۔ اس طرح تو قلعی گر دےواروں کو، پان والا پان کو اور چالباز سادہ لوح لوگوں کو چونا نہیں لگا تے جیسے ہماری حکومتوں نے عوام کو الو بنانے اور چونا لگا نے کی قسم کھا رکھی ہے۔ کسی چےز کی قیمت سو یا دو سو بڑھا کر تیس چالیس روپے کم کر کے ہےرو بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پٹرول کی قیمت اصولاً دو سو روپے سے کم ہو نی چا ہیے تھی یا کم از کم سو ڈےڑھ سو روپے کم کرتے۔ عوام کو آٹے دال بجلی پانی گیس کے چکر میں ڈال کر ، بلوں کے لیے قطاروں میں کھڑا کر کے اور مہنگائی کی چکی میں پیس کر ان دس پندرہ سالوں میں عوام کو اعصاب کی جنگ میں مُبتلا کر دیا ہے۔ عوام کا ذہن دال روٹی اور بِلوں کی ادا ئےگی تک محدود کر کے اشرافیہ کی عیاشیاں بد ستور جاری ہیں۔ نہ انکے غےر ملکی دُورے ختم ہو رہے نہ پروٹوکول میں کمی وا قع ہو رہی اور نہ ہی انکی لا کھوں تنخواہیں، بو نس ، مرا عات، نوازشات، کرائے بھاڑے، فنڈز اور دےگر عیاشیاں ختم ہو رہیں۔گزشتہ پانچ سالوں سے لوگوں کو نوکریاں نہیں مل رہیں۔ اُنکی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ مہنگائی پانچ سو فےصد بڑھا کر تنخواہوں میں سال بعد رُو رُو کر دس فےصد اضافہ کیا جاتاہے۔ سابقہ، حالیہ اور آنےوالے حکمرانوں کے لیے پاکستانےوں کے دل میں شدید نفرت ، غصہ اور انتقامی جذبات بھڑک رہے ہیں۔ لوگ اسقدر عا جز آ کر خو د کشیاں کر رہے ہیں۔ پانچ سالوں میں ایک بھی عوامی بہبودکا کام نہیں کیا گیا۔ عوام کو کوئی رےلےف دینا تو بہت دُور کی بات ہے، الٹا انھیں طرح طرح کی اذےتیں مصیبتیں اور تکلےفیں پہنچائی گئی ہیں۔ اس کی وجہ صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کی خود غرضیاں، منافقت جھوٹ اور حرص و ہوس ہے۔ کو ئی اصلاحی فلاحی کام نہیں کیاگیا۔ خا ص طور پر دو سال پاکستانی عوام کے لیے عذاب بنے رہے ہیں۔ ہر حکمران لالچی، خود غرض، مفاد پرست، ذاتی تعلقات بڑھانے، اثا ثوں میں اضافہ کرنے اور غےر ملکی سےر سپاٹے کرنے کے لیے آتا ہے۔ یہ پاکستان کسی قانون، آئین، ضا بطے، اخلاقیات، خدمت اور کام کے بغےر چل رہا ہے۔ حےرت ہو تی ہے کہ کرپشن کے پہاڑوں کے آگے بھی پاکستان کیسے ڈٹ کر کھڑا ہے اور کون طاقت ہے جو اسے چلا رہی ہے؟؟؟