غزہ پر اسرائیلی بمباری اور ہماری جنگ بندی کی اپیلیں
ڈاکٹر طاہر بھلر
اسرائلی وزیراعظم نیتن یاہو کہہ رہا ہے کہ کسی حماس کے بندے کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ مشرق وسطی کا نقشہ بدل کر رکھ دے گا۔ آج اسرائئل اور اس کے وزارااتنے اتنی خوقناک بمباری کے ساتھ زمینی ٹینکوں سے حملہ کر رہے ہیں تا کہ غزہ کی پٹی سے تمام پچیس لاکھ کے قریبرہنے والوں کو یہاں سے تکال باہر کیا جائے اور اس جگہ پر قبضہ کر کے گریٹر اسرائل جو رقبہ کے اعتبار سے ، ٹیکنالوجی کے اعتبار سے جنگی قوت کے لحاظ سے نہ صرف گریٹر اسرائل بن جائے بلکہ ایک سپر طاقت کا روپ دھار کر اپنے فیصلے اتنی ہی سنگدلی سے کرے جیسے آج کی سپر پاورز کر رہی ہیں اور اپنے پہلے ٹارگٹ مسلم دنیا کو نیست ونابود کر دے اسی حوالے سے آج اسرائلی ارباب اختیار ایسے بیانات دے رہے ہیں جیسے امریکا سمیت تمام یورپ ان کا باج گزار ہو اور مسلمان تو پہلے ہی تنگ آمد بجنگ آمد با امر مجبوری غزہ میں آخری حربےکے طور پر اس خفیہ ایٹمی صیحونی طاقت سے لڑنے پر مجبور ہو چکے تھے نہ مصر انہیں پناہ دے رہا تھا اور سعودی عرب ، گلف کی تمام ریاستیں ایک آدھی کو چھوڑ کر اسرائل کو پہلے تسلیم کر چکی ہیں اور اب اس کی باج گزار ریاستیں بننے کو تیار ہیں۔دھمکی آمیز بیانات دئے جا رہے ہیں امریکا نے اپنا جنگی بیڑا بھی اسرائل کی مدد کے لئے بیھج دیا ہے یورپی ممالک یک مشت ہو کر حماس کے خلاف کھڑے ہیں۔ اتنے ترقی یافتہ ، ڈرونز سیٹیلائٹ اور پاکستان میں استعمال کرنے والے ہیل فائر میزائل جیسے مہلک میزائل کے مالک امریکا اور یورپ کیا اندھے ہو چلے ہیں کہ انہیں اسرائل کی دنیا کے ہر چینل پر دکھائی جانے والی وحشیانہ بمباری نظر نہیں آ رہی ہو گی۔ کیا وہ خود اس اس وحشیانہ بمباری اور غزہ کے محاصرہ نظر نہیں آ رہا، کدھر ہیں ان ترقی یافتہ ممالک کی انسانئت اور بنیادی حقوق کے نعرے۔یہ بربرئت پچھلے پچاس سال سے نہیں بلکہ فلسطینی اور مشرق وسطی کے عوام پچھلے سو سال سے یہ وحشت انگیز کھیل دیکھ رہے ہیں۔ اس بہتے ہوئے خون کو پچھلے سو سال سے مشرق وسطی میں کوئی ر و کنے والا نہیں۔غزہ عین اسرائلی وزیراعظم کے بیان کے مطابق ملبے کا ڈھیر بن چکاہے ۔ آج ہر چینل یہ دکھا رہا ہے کہ اسرائلی بربریت کو رہکنے والا کوئی نہیں، غزہ کی تمام عمارتیں ملبے اور اسرائلی فرعونیت کا منظر پیش کر رہی ہیںادھر تمام مسلم ریاتیں اور حکمران اس سخت امریکی شکنجے میں ہیں کہ وہ سب کچھ ہونے کے باوجود خوف ، لالچ ذاتی جاہ ہشمت میں ڈوبے جا رہے ہیں ۔ بے پناہ انسانی قتل ہو رہا ہے اور کوئی کسی بچے ، بوڑھے عورت یا عوام کو بچانے کو تیار نہیں۔ یہودی میڈیا ہر بات سے پہلے یہ پوچھتا ہے کہ پہلے اسرائلی قتل ہونے ہوالوں کی کی مذمت کرتے ہیں ۔ جناب قتل قتل ہے لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ یہودی میڈیا اس سو سالا مسلم قتل کا ذکر نہ کرے اور اسے ماضی کا قصہ قرار دے اور صرف آج کی بات کرے اور وہ بھی صرف اسرائیل کے اوپر حماس کے میرائیلوں سے مرنے والوں والے اسرائیلیوں کا جبکہ اسی فیصد اسرائل کو کوئی گزنذ اس نہیں پہنچ سکتا، کہ اس کا ایٹم پروف حفاظتی شیلڈ ،، آئرن ڈوم ،، پر کسی چیز کا اثر نہیں ہو سکتا۔آج مسلم امہ بڑی زبوں حالی کا شکار ہے، ایک دوسرے خلاف صف آرا ہے ، تہہ در تہہ تقسیم ہو چلی ہے، غیر ہنر مند اور موجودہترقی یافتہ دنیا کی تیکنالوجی سے کوسوں دور ہے، ان کی حکومتیں کرپٹ ،نااہل ،ان کے حکمران غلامانہ سوچ کے حامل ہیں کہ ان کے اقتدار اور حکومتیں امریکی مرضی کے تابع ہیں۔ امریکاجب چاہے سوائے ایران کے، کسی بھی اسلامی حکومت کوزمیں بوس کر سکتا ہے ۔ یہ ہے ہماری آزادیاں، ایسے میں صرف ایک متحد بے خوف مسلم قیادت جو آج کے دور میں ایران دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے، اس کی قیادت کو تسلیم کیا جائے اور تمام بکھری ہوئی مسلم قوم جو ٹکٹریوں میں تقسیم ہے، ایک دوسرے کو مالی ، اخلاقی سپورٹ دے کر ایک قوت کا روپ اختیار کریں تو شائد ان کی بچت ہو سکے۔ورنہ دنیا قیمت کی چال چل چکی ، ہم جرس کارواں ہیں ہم پرانے توہمات وسوسوں ، خیالی شاہانہ سوچوں سے نکلنے کو تیار نہیں۔ آج کوئی مانے یا نہ مانے ڈیڈھ ارب کی مسلم دنیا مفلوج ہو چکی ہے ۔ ان میں سے ایک بھی اپنے اندر وہ ضروی اصلاحات نہیں لا سکا جس سے وہ آج کے دور کے سیاسی تیکنیکل چیلنجوں سے نبرد آزما ہو سکے۔ جب کے انیس سو چوالئیس میں سویڈن کے وولن برگ جس نے انیس سو چوالیس میں ہزاروں یہودی بچائے اور انیس سو اڑتالیس میں بن گوریان نے بلفر کے انیسو انیس کے اعلان کے مطابق اجڑے پناہ گزیں یہودیوں کو امریکی برطانوی مدد سے اپنے رہنے کے لئے ایک سلطنت کے لئے اکٹھا کیا اورمشرق وسطی میں مسلم سوئی ہوئی اقوام کو اندر سے چھرا مارا اور بزور طاقت اسرائلی ریاست پیدا کی جس نے اپنے اندر دیکھتے ہی دیکھتے ایک جمہوری اپنی عوام کے لئے آئینی جوابدہ ہر فیلڈ بشمول دفاع میں ریسرچ کرنے وا لے دارے بنائے اور ہمارے ہمسائے انڈیا، چین کی طرح غلامی سے آزادی تک پہنچتے بڑی طاقتوں بلکہ ناقابل شکست قوتوں میں اپنے آپ کو بنانے میں آج کامیاب ہیں اور ہم تمام ابھی تک پدرم سلطان بود جپتے جپتے وسوسوں توہمات ، خیالی دنیاوں میں محو، کرپشن فرقوں ذات پات ، برادریوں حاضرو ناظر جیسے فروعی اختلافات میں باہم دستو گریباں، خلقہ بریشم میں اقبال کے برخلاف ایک دوسرے کے لتے لینے میں مصروف انا پرست ،ہنود دلی دور است سمجھ رہے ہیں ۔حالانکہ ٹھہرنے والے کچلے جا چکے ہیں۔ زمانہ قیامت کی چال چکا ، محشر کی گھڑی آچکی کہ آج تمام مسلمان ہر جگہ بے خانماں ارزاں و درماں اور پناہ کی تلاش میں اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کی اپیلیں کرنے میں ہمہ تن گوش۔ بقول علامہ مشرقی ، علامہ اقبال ، مولانا آزاد اب ہمیں کوئی جائے پناہ نہیں ملنے والی۔