بہت دنوں سے سن رہا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض حلقوں کی طرف سے پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے۔ دیکھیں ہمیں یہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پی ٹی آئی ایک قومی سیاسی جماعت ہے اور اس کے ساتھ ایک سیاسی جماعت جیسا سلوک ہی ہونا چاہیے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کی مکمل اجازت ہونی چاہیے۔ حریف سیاسی جماعتوں کو بھی یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مشکل حالات آتے جاتے رہتے ہیں کسی کو طاقت کے زور پر یا مشکل حالات میں گلا دبانے کے بجائے سانس لینے کی حکمت عملی کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی نے جو غلطیاں کی ہیں اور جن لوگوں کی طرف سے ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوئی ہے انہیں اس کی سزا ملنی چاہیے۔ ہمیں پاکستان تحریک انصاف کو نو مئی سے پہلے اور نو مئی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ نو مئی سے قبل والی تحریک انصاف کو اداروں نے اتنا سپورٹ کیا کہ ایسی حمایت اور تعاون پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی اور سیاسی جماعت کو نہیں مل سکا۔ اس لیے اگر پی ٹی آئی کے حمایتی یہ سمجھتے ہیں کہ اداروں نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا تو یہ غلط ہے اور اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ مشکل وقت میں ہر سیاسی جماعت کو ایسے ہی مسائل کا سامنا رہا ہے۔ کیا لوگوں کو محترمہ شہید بینظیر بھٹو کا وقت یاد نہیں ہے، کیا لوگوں کو محترمہ نصرت بھٹو کی مشکلات یاد نہیں ہیں، میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ اس لیے یہ کہنا مناسب نہیں کہ صرف تحریک انصاف کو ہی مشکل دور سے گذرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دو ہزار اٹھارہ میں حکومت بننے کے بعد سے عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کے خاتمے تک تمام تر بدانتظامی کے باوجود، غلط فیصلوں، تقرریوں و تعیناتیوں کے معاملے میں میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے تک، من پسند افراد کو عہدے دینے، میڈیا کا گلا گھونٹنے، مخالف سیاسی جماعتوں کو انتقام کا نشانہ بنانے سے ناقص معاشی پالیسیوں اور برادر اسلامی ممالک اور عالمی طاقتوں سے تعلقات خراب کرنے کے باوجود پی ٹی آئی کو عوامی حمایت بھی حاصل رہی اور اداروں نے بھی منتخب سیاسی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ مہنگائی میں اضافہ ہوتا رہا، ادویات مہنگی ہوتی رہیں، سمگلنگ عروج پر رہی، ڈالر بے قابو ہوتا رہا، انتظامیہ بے بس رہی، عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدے کر کے انہیں توڑتے رہے لیکن پھر بھی یہ لاڈلے ہی تھے۔ اگر آج یہ کہتے ہیں کہ حمایت نہیں ملی تو یہ غلط ہے اور اگر آج یہ کہتے ہیں کہ حمایت نہیں مل رہی تو ان حالات کا جائزہ بھی لے لیں کہ کیا آپ کے اعمال ایسے ہیں کہ اب کوئی آپ کی حمایت کرے گا۔ آپ کو ملنے والی حمایت آپ کی اپنی حماقتوں کی نذر ہوئی ہے۔ نو مئی کو جو کچھ آپ نے کیا ہے اس کے بعد کوئی تحریک انصاف کی حمایت نہیں کر سکتا۔ نو مئی کو ریاست پر حملہ آور ہونے والوں کو تو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے اندرونی و بیرونی عناصر کو جواب نہیں دیا جا سکتا ۔ نو مئی کو تحریک انصاف کے جن لوگوں نے ریاستی اداروں پر حملہ آور ہو کر اس ملک پر جو ظلم کیا ہے اس کا حساب تو لینا پڑے گا ۔ ملک کے بہتر مستقبل اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کے تمام منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے سخت فیصلوں کی ضرورت ہے ۔ یہ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست سب سے اہم ہے۔ سیاسی معاملات میں اتار چڑھاو¿ کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی بھی گروہ یا سیاسی جماعت ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے اور حملے کرنا شروع کر دے۔ تحریک انصاف نے یہ فاش غلطی کی تھی۔ ان کے پاس عوامی حمایت موجود تھی اور انہیں سیاسی میدان میں رہتے ہوئے معاملات کو سلجھانے اور آگے بڑھانے کا راستہ نکالنے کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت تھی لیکن پی ٹی آئی قیادت نے اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار
کیا اور وہ تباہی کا راستہ تھا۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کسی کی کوئی مدد کر سکتے ہیں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ ایک تو خود پی ٹی آئی چیئرمین اور ان کے قریبی حلقے اپنے ہی صدر پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں جب کہ جو حالات بن چکے ہیں ان میں شاید ہی کوئی صدر پاکستان کی بات سنے گا۔ بنیادی طور پر وہ اس پوزیشن میں ہی نہیں ہیں کہ اپنی جماعت کے کسی کام آ سکیں۔ اس معاملے میں وہ بالکل غیر متعلقہ ہو چکے ہیں۔ لہذا جن مسائل کا سامنا اس جماعت کو ہے ان میں اب شاید ہی بات چیت کا کوئی راستہ ذریعہ یا امکان نظر آتا ہے۔ ملک کو آگے بڑھنا ہے اور ملک کی سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر یہ طے کرنا ہے کہ کون کیا ذمہ داری نبھا سکتا ہے اور کون کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ سیاسی قیادت کی سب سے بڑی ذمہ داری اعتماد کی بحالی اور نفرت کی سیاست کے اثر کو زائل کرنا ہے۔ اس کے لیے سب کو ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف پاکستان کا سوچنا ہو گا ۔ یہ بھی یاد رکھیں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اکیلا مسائل حل کر سکتا ہے تو یہ بہت مشکل ہے۔ پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا اور اس کی قیادت آج کس حال میں ہے یہ سب کے سامنے ہے۔ کیا ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کی موجودہ حالت سے سبق سیکھتی ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔
آخر میں آفتاب مضطر کا کلام
ہر ظلم ترا یاد ہے بھولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں
اے وقت مٹانا مجھے آسان نہیں ہے
انساں ہوں کوئی نقش کف پا تو نہیں ہوں
چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کے ہاتھوں
مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں
یہ دن تو مجھے ان کے تغافل نے دکھائے
میں گردش دوراں ترا مارا تو نہیں ہوں
ان کے لیے لڑ جاو¿ں گا تقدیر میں تجھ سے
حالانکہ کبھی تجھ سے میں الجھا تو نہیں ہوں
ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
کیوں شور بپا ہے ذرا دیکھو تو نکل کر
میں اس کی گلی سے ابھی گزرا تو نہیں ہوں
مضطر مجھے کیوں دیکھتا رہتا ہے زمانہ
دیوانہ سہی ان کا تماشا تو نہیں ہوں
حمایت حماقت کی نذر ہوئی ہے!!!!!!
Oct 18, 2023