ہر صبح اپنے ساتھ نئی ا±مید کا پیغام لے کر طلوع ہوتی ہے پھر پتہ چلتا ہے کہ پیغام جھوٹا تھا۔ یاس کی دھوپ پھیلتی ہے اور نوامیدی مہرنیم روز کی طرح ”دمکتی“ ہے۔ اس کے بعد یاس کے سائے پھیلنے لگتے ہیں۔ پھر کبھی دکھوں کی پچھوا تو کبھی غموں کی پروائی چلتی ہے۔ پھر سیاہی کی پیغام ابر شام کی آمد جس کے پیچھے شب تیرہ چلی آتی ہے اور اگلی صبح کے ایک اور جھوٹے پیغام ا±مید کی راہ ہموار کرتی ہے اور یہ قصّہ آج کا نہیں ہے، صدیوں اور ہزاریوں سے یہی ماجرا چلا آ رہا ہے۔ ایک ہی فلم ہر روز ری پلے ہوتی ہے۔ جنگیں، قحط ، زلزلے، سیلاب، قدرتی آفات، انسان کی بنائی ہوئی بلائیں روز و شب کرہ ارض کو گھیرے رکھتی ہیں
روز معمورہ عالم میں خرابی ہے ظفر
ایسے معمورے سے تو ویرانہ بنایا ہوتا
گیدڑ کی مت ماری جاتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور سیانوں کی مت ماری جاتی ہے تو وہ اقوال زرّیں گھڑتے ہیں جیسے کبھی ظلم کی ناﺅ چلتی نہیں حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ ظلم کی ناﺅہی چلتی ہے اور چلتی ہی نہیں، پھلتی اور پھولتی بھی ہے۔ وہ مظلوم کی آہ سے نہیں ڈوبتی، وہ تب ڈوبتی ہے جب اس سے بڑی ظلم کی ناﺅاس سے ٹکرا جائے۔ یا یہ کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے حالانکہ صبر کڑوا ، اس کا پھل اس سے بھی کڑوا کروڑے پھل کو میٹھا کہیں، دیکھ کبیرا رویا۔ مظلوم کا صبر ظالم کی طاقت بڑھاتا ہے ہاں، اس میں کوئی شک نہیں، صبر کا اجر آخرت میں ضرور باالضرور ملتا ہے۔
دنیا کو لات مارو، دنیا سلام کرے لیکن مارنے والے کو ”آئینی“ تحفظ حاصل ہو تبھی لات مارنے سے دنیا سلام کرتی ہے ورنہ تاحیات جیل، بنا مقدمہ چلے مقدر بنتی ہے۔ غریب اور کمزور کے پاس لات ہوتی ہے لیکن مارنے کا لائسنس نہیں چنانچہ اس کی لات بے کار عضو معطل ہے۔
کشمیر ہو یا برما، فلسطین ہو یا بوسنیا، ہر موقع پر کروڑوں مسلمان دعا کرتے ہیں کہ ظالموں پر قہر نازل ہو لیکن آج تک کبھی ظالم پر قہر نازل نہیں ہوا۔ ظالم پر قہر ڈھانے کے لیے طاقت چاہیے۔ منگولوں کی یلغار ہوئی تو تب کے کروڑوں مسلمانوں نے آیت کریمہ کا اجتماعی ورد کیا اور لاکھوں ”ختم“ ایک ہی دن دلوائے۔ مصر سے بیبرس اٹھا، اس نے کہا کہ درود اورختم نہیں، تلوار سے کام ہو گا۔ اس نے تلوار نکالی اور منگولوں کو وسط ایشیاءتک کھدیڑ دیا۔
امریکہ اور برطانیہ نے فلسطین میں جنگ بندی کیلئے روس کی قراردد ویٹو کر دی، کہا کہ اس قرارداد میں حماس کی مذمت نہیں کی گئی۔
حماس کی مذمت ضروری ہے، جنگ بندی نہیں۔ یہ پتہ چلا__ بہرحال اپنے طور پر امریکہ اور برطانیہ جنگ بندی کے لیے کوشاں ہیں، روس اور چین سے رابطے بھی ہو رہے ہیں اور عرب ملکوں سے بھی۔ دراصل امریکہ اسرائیل کو سمجھا رہا ہے کہ میاں اب بس کرو، سارے فلسطینی ابھی مار ڈالے تو اگلے سال کیا کرو گے۔
شمالی غزہ کی بارہ میں سے گیارہ لاکھ آبادی ہجرت کر چکی۔ اسرائیل نے بیان دیا ہے کہ ایک لاکھ اب بھی باقی ہیں۔ وہ بھی نکل جائیں تو جنگ بندی کا سوچیں۔ ارادہ شمالی غزہ پر قبضے کا ہے۔ اسی بابت اس نے اشارہ دیا تھا جب اس نے کہا تھا کہ جنگ کے بعد نیا نقشہ ہو گا۔ نیا نقشہ کوئی نئی بات نہیں۔ فلسطین کا نقشہ ہر جنگ کے بعد بدل جاتا رہا ہے۔ اسرائیل کا حصہ بڑھتا اور فلسطین کا کم ہو جاتا رہا ہے۔ اسرائیل بنا تھا تو 20 فیصد رقبہ اس کے پاس ، 80 فیصد فلسطینیوں کے پاس تھا۔ اب فلسطینیوں کے پاس دس فیصد بھی نہیں۔ نقشے میں مغربی کنارہ اچھا خاصا رقبہ لگتا ہے لیکن اس کے اندر فلسطینیوں سے زیادہ یہودی آباد کاروں کی بستیاں ہیں۔ مغربی کنارے کی اتھارٹی کتنے رقبے پر ہے، خود مغربی اتھارٹی کو بھی نہیں پتہ۔
اسرائیل مغربی کنارے میں کیوں گھس گیا ہے؟۔ یہ تزویراتی گہرائی کا مسئلہ ہے۔ تزویراتی گہرائی مشکل لفظ ہے، اردو میں اسے ”سٹریٹجک ڈیتھ کہتے ہیں۔ اسرائیل مغربی کنارے کے شمال میں بھی ہے لیکن مشکل پہاڑی علاقہ اور آبادی کم، وہ مغربی کنارے کے جنوب میں بھی ہے لیکن سارے کا سارا صحرا اور آبادی بہت ہی کم۔ چنانچہ اصل اسرائیل مغربی کنارے کے مقابل ایک نہایت تنگ پٹی پر مشتمل ہے جو کہیں سے دس، کہیں سے پندرہ اور کہیں سے 20 میل چوڑی اور مل ملا کر ستر اسی میل لمبی ہو گی۔ مغربی کنارہ ایک طرف ، بحیرہ روم دوسری طرف بیچ میں یہ تنگ پٹی۔ اس اتھلی ”ڈیتھ“ کو چوڑا کرنے کیلئے وہ مغربی کنارے کے اندر گھستا چلا جا رہا ہے۔
مغربی کنارے کی اتھارٹی جس کا سربراہ محمود عباس ہے، اچانک پرامید ہو گئی ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے، وہ شمالی غزہ پر قبضہ کرے گا اور کچھ مدّت کے بعد جب ”حماس“ کے آسیبی اثرات کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا تو اس علاقے کو ہم مغربی کنارے کی اتھارٹی کے حوالے کر دیں گے۔ اس پر محمود عباس بہت خوش ہوئے اور بے ساختہ پکار اٹھے، حماس غزہ کے عوام کی نمائندگی نہیں کرتی۔ شمالی غزہ پر کنٹرول حاصل کر کے محمود عباس کی اتھارٹی غزہ کے آثار قدیمہ، موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی طرح ٹورازم کے لیے کھولی جا سکتی ہے۔
_____
پی ٹی آئی عرف پٹی پٹائی پارٹی کے ایک اہم اثاثے فرخ حبیب نے بھی ”حقیقی آزادی“ حاصل کر لی اور ایک پریس کانفرنس میں عمران خان کے ساتھ وہی کچھ کر ڈالا جو مرے مرائے کے ساتھ شاہ مدار کیا کرتا ہے یادش بخیر، فرخ حبیب خاں صاحب کے قیمتی ترین اثاثوں میں سے ایک تھے۔ 2018ءکے انتخابات میں ان امیدواروں کی فہرست حضور فیض گنجور کے پاس تھی جن کو جتوایا جانا ضروری تھا۔ اس فہرست میں فرخ حبیب کا نام نہیں تھا۔ حلقے سے عابد شیر علی بری طرح جیت رہے تھے اور فرخ حبیب اچھی طرح ہار رہے تھے۔ خان صاحب نے حضور فیض گنجور کو ارجنٹ کال کی اور درخواست کی کہ فوری مداخلت کریں، فرخ حبیب کو جتوائیں۔ حضور فیض گنجور نے فوری مداخلت کی اور پھر فرخ حبیب اس طرح جیت گئے جس طرح 30 ہزار ووٹوں کے مارجن سے ہارے ہوئے قاسم سوری صبح کو اٹھے تو بھاری اکثریت سے جیت چکے تھے۔ سوری صاحب ہار کا سوگ منا کر صبح دم سوئے تھے، فون کر کے جگایا گیا اور ”فتح“ کی خوشخبری سنائی گئی۔
فرخ حبیب نے 9 مئی کی ساری ذمہ داری خان پر نہیں ڈالی بلکہ اس میں پنکی پیرنی صاحب کو بھی حصہ دار بنایا۔ یوں حق بہ حقدار رسید!
_____
خان صاحب کے وکیل شیر افضل مروت صاحب نے کہا ہے کہ 9 مئی کا ملبہ خان صاحب پر ڈالا جا رہا ہے حالانکہ ان کا کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ بالکل بجا فرمایا۔ مزید بجا یوں فرماتے کہ 9 مئی کے روز تو کچھ ہوا ہی نہیں تھا اور مزید تر بجا یوں بھی فرما سکتے تھے کہ 9 مئی کا دن تو آیا ہی نہیں تھا __ 8 مئی آیا تھا اور اس کے بعد 10 مئی آیا تھا۔
فرخ حبیب کو بھی حقیقی آزادی مل گئی
Oct 18, 2023