کیا پاکستان کانفرنس کے ثمرات سمیٹ پایا؟

Oct 18, 2024

عیشہ پیرزادہ
eishapirzadah1@hotmail.com
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے دو روزہ سربراہی اجلاس میں رکن ممالک کے سرکردہ رہنما شریک ہونے کے لیے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پہنچے۔کانفرنس کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہوا جب تمام ممالک کی نظریں اسرائیل اورفلسطین ،لبنان کی جنگ پر جمی ہوئی ہیں۔ 
یہ کانفرنس ایسے وقت پر بھی منعقد ہوئی جب    یورپی یونین اور خلیج تعاون کونسل کا اپنی نوعیت کا پہلا مشترکہ سربراہی اجلاس بیلجیئم کے دارالحکومت میں ہو رہا تھا۔ اس اجلاس میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ اور اسرائیل کے فلسطین اور لبنان میں جنگ بندی پر اتفاق رائے سے واضح پوزیشنز لی گئیں۔
اسی وجہ سے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے توقع کیا جارہی تھی کہ یہاں سے فلسطین اور لبنان کے لیے مشترکہ اعلامیہ سامنے آئے گاتاہم ایس سی او اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں کشمیر، فلسطین، لبنان، ایران، روس اور یوکرین کے درمیان جاری بڑے عالمی تنازعات کا ذکر نہیں تھا۔البتہ اجلاس کے دوران متعدد ممالک نے مشرق وسطی کی خانہ جنگی پر ضرور بات کی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے غزہ اور لبنان پر جاری اسرائیلی جارحیت پر دو ٹوک موقف پیش کیا۔
 شنگھائی تعاون تنظیم چین، روس، پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک کی وجہ سے آبادی کے لحاظ سے بڑا اتحاد ہے جبکہ یہ دنیا کے 40 فیصد رقبے کو بھی کور کرتا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگرچہ اس کا ڈھانچہ نیٹو سے مختلف ہے اور فوجی صلاحیت محدود ہے، لیکن اس تنظیم کا قیام خود ایک مثبت قدم ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 میں چین اور روس نے رکھی تھی جس کے اراکین میں اب قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، انڈیا اور ایران بھی شامل ہیں۔ کیونکہ آبادی کے لحاظ سے دو بڑے ممالک انڈیا اور چین اس تنظیم کے رکن ہیں اس لیے یہ تنظیم دنیا کی کل آبادی کے 40 فیصد کا ایک فورم ہے۔
پاکستان 2005 سے 2017 تک اس تنظیم کا آبزرور رکن رہا اور پھر جولائی 2017 میں اسے باضابطہ طور پر ایس سی او میں شامل کیا گیا۔اس تنظیم کا آغاز ایک یوریشیائی سکیورٹی تنظیم کے طور پر ہوا، جس کا مقصد روس، چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان سکیورٹی اور استحکام کو فروغ دینا تھا۔2017 میں، انڈیا اور پاکستان کی مکمل رکنیت اور افغانستان کی مبصر کی حیثیت سے شمولیت کے بعد، تنظیم نے اپنے دائرہ کار کو وسیع کیا۔
گذشتہ برس ایران کو بھی تنظیم کی باقاعدہ رکنیت دے دی گئی۔ اب ایس سی او کی توجہ دہشت گردی، انتہا پسندی، منشیات کی سمگلنگ اور بنیاد پرستی جیسے مشترکہ مسائل پر ہے۔
اس تنظیم کی قیادت ہیڈز آف اسٹیٹ کونسل کرتی ہے، سالانہ اجلاسوں میں اراکین کثیرالجہتی تعاون کے مسائل پر تبادلہ خیال اور تنظیم کے بجٹ کی منظوری دیتے ہیں۔اس  تنظیم نے2001ء سے 2008ء تک تیزی سے ترقی کی اور اقتصادی و سیکیورٹی معاملات سے نمٹنے کے لیے متعدد مستقل ادارے قائم کیے۔
 و اضح رہے کہ دنیا میں اس وقت کئی ایسے اتحاد موجود ہیں جو معیشت یا سکیورٹی اور دفاعی ضروریات کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان میں بڑے اتحاد جیسا کہ جی سیون، جی ٹوئنٹی، کواڈ، نیٹو اور ایس سی او ہیں۔ جی سیون اور جی ٹوئنٹی تو معیشت اور اقتصادی امور پر بنے الائنس ہیں جن کی توجہ کا مرکز رکن ممالک میں معاشی استحکام، ترقی اور سیاسی ہم آہنگی کا فروغ ہے۔
پاکستان کی علاقائی خصوصیت ہمیشہ سے اس کا ایک جغرافیائی سیاسی اثاثہ رہا ہے لیکن اندرونی چیلنجز کی وجہ سے وہ اپنی علاقائی خصوصیت کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھا پایا ہے۔ اب ایس سی او جیسے کثیرالجہتی پلیٹ فارم میں متحرک کردار کرکے پاکستان اقتصادی فوائد اور سفارتی سرمایہ دونوں حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان کے اقتصادی مفادات صرف چین تک محدود نہیں۔ پاکستان وسط ایشیائی ممالک اور روس کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو وسعت دے سکتا ہے اور اقتصادی ترقی اور تنوع کو فروغ دے سکتا ہے۔
لیکن یہاں سوال  یہ ہے کہ کیا پاکستان نے اجلاس کی سربراہی کے ذریعے فائدے سمیٹے؟  مختلف ممالک کیساتھ سفارتی تعلقات  مضبوط کرنے کا اس سے اچھا موقع سالوں میں ہاتھ آتا ہے۔ماہرین کے مطابق اس اجلاس میں پاکستان کو نہ صرف رکن ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا موقع ملا بلکہ دنیا کو یہ پیغام دینے کا بھی موقع ملا کہ پاکستان اب بھی بین الاقوامی سفارتی محاذ پر اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے ایس سی او کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے گزشتہ روز کہا کہ ’ہماری کوشش تھی کہ ایس سی او کا ماحول مثبت ہو اور یہ بھی کہ تمام ممالک اتفاق رائے کے ساتھ نئی راہیں تلاش کریں۔ اسی وجہ سے ہم نے سب رکن ممالک کے ساتھ مل کر اعلامیے پر کام کیا۔ ہماری توجہ کا مرکز ترقی پذیر ممالک کے مسائل، رابطہ کاری اور تجارت تھے جبکہ گلوبل تجارت اور عالمی چیلنجز پر بات بھی کی گئی۔‘پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے رکن ممالک کو عالمی سطح پر تجارت، رابطہ کاری اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔انھوں نے افغانستان کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ افغانستان علاقائی ترقی کے لیے ایک اہم ملک ہے لیکن وہاں دہشتگردی کے خطرات کو ختم کرنا بھی ضروری ہے۔انڈین وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر کی شرکت کو بھی اس اجلاس کا اہم حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ایک دہائی میں کسی اعلیٰ انڈین عہدیدار کا پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔ لیکن ہم نے یہ دیکھا کہ جس طرح بقیہ ممالک کے وفود کا وزراء نے ایئر پورٹ پر خود جاکر استقبال کیا 
 ویسا استقبال انڈین وزیر خارجہ کا دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ انہیں ویلکم کرنے کے لیے دفتر خارجہ کے آفیسر کو بھیجا گیا۔  بہتر یہ تھا کہ چونکہ پاکستان اجلاس کی سربراہی کر رہا تھا اور میزبان ملک تھا تو جس طرح بقیہ ممالک کے وفود کا استقبال کیا بھارت کو بھی اسی نظر سے دیکھا جاتا۔ یہ ایک موقع تھا سرحد پار جمی سرد مہری کی برف کو پگھلانے کا۔

مزیدخبریں