عبدالستار چودھری
پاکستان میں کئی برسوں کے بعد ایک ایسی عالمی کانفرنس کا کامیابی سے انعقاد ہوا جس سے نا صرف عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت پہلو اجاگر ہوا بلکہ ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کا موقع بھی میسر آیا ۔ کانفرنس میں مسئلہ کشمیر پر کسی بھی فریق کی جانب سے کوئی بات نہ کی گئی اور اس کی وجہ بھی شاید یہی رہی ہو گی کہ یہ ایک کثیرملکی اتحاد ہے اس لئے اس فورم پر دوطرفہ معاملات زیربحث نہیں لائے جا سکتے۔ تاہم فلسطین کے لئے رکن ممالک کی جانب سے بھرپور آواز اٹھائی گئی۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کی سربراہان مملکت کونسل کے اجلاس میں بھارتی وزیراعظم نے شرکت نہیں کی تاہم بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی کانفرنس میں شرکت اور بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف، وزیرخارجہ اسحاق ڈار اور حکومت پاکستان کو شکریہ کا ٹویٹ کر کے انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ ان کی شرکت کسی بھی قسم کے متنازعہ ایجنڈے سے پاک رہی ہے اور دوطرفہ معاملات کو آگے بڑھانے کے لئے یہ ایک اچھا آغاز ہو سکتا ہے۔
کانفرنس میں مختلف ممالک کے درمیان باہمی تعاون اور یوروایشیا میں روابط بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ چین اور روس کے وزرائے اعظم سمیت دیگر رکن ممالک کی اعلی قیادت اور مبصرین نے اجلاس میں شرکت کی۔ اس اجلاس نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان نے کاروبار کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں اور کثیرالجہتی تنظیموں میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا جن میں معاشیات، ماحولیات اور ثقافتی معاملات شامل ہیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ اس اعلامیے میں ایس سی او ڈویلپمنٹ بینک کے قیام کے لیے کوششیں کرنے اور باہمی ادائیگیوں کے لیے ملکی کرنسیوں کے استعمال کو بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی ایک ملک کی جانب سے دوسرے پر یک طرفہ پابندیوں کا اطلاق بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ یہ مغربی ممالک پر ڈھکے چھپے الفاظ میں تنقید تھی جو اپنے جغرافیائی سیاسی حریفوں روس اور ایران دونوں ایس سی او کے رکن ہیں کے خلاف پابندیوں اور ڈالرز کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ مشترکہ اعلامیے میں روایتی اقدار اور ثقافتی اور تہذیبی تنوع کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے وجودی بحران کے طور پر موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو اجاگر کیا جبکہ افغانستان میں استحکام کی ضرورت پر بھی بات چیت کی۔ اگرچہ وہ ایس سی او کا رکن ہے لیکن 2021 میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے افغانستان نے ایس سی او کے کسی بھی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں جاری نسل کشی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس نوعیت کے اجلاس کا انعقاد کسی بھی ملک کے لیے عام بات ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے پاکستان کی سلامتی کے مسائل، مالی بحران اور سیاسی عدم استحکام کے باعث ہمارے لیے اس اجلاس کا انعقاد ایک چیلنج تھا، ایسے میں اتنی بڑی تعداد میں عالمی رہنماؤں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانا، پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایس سی او کے اراکین نے پاکستان کی کاوشوں کا اعتراف کیا اور مشترکہ اعلامیہ میں بیان جاری کیا کہ سربراہی اجلاس کا انعقاد ایک تعمیری اور دوستانہ ماحول میں ہوا۔ ہم آج جس نکتے پر موجود ہیں، اس تناظر میں ایس سی او کے اہداف بالخصوص مشترکہ بینک، کرنسی کے تبادلے، ہموار علاقائی روابط وغیرہ کو حقیقت میں بدلنے میں بہت زیادہ وقت اور محنت درکار ہوگی۔ تمام 10 اراکین ممالک کے اپنے مخصوص حکومتی نظام ہیں جس میں رہتے ہوئے ان کے بیوروکریٹس کام کرتے ہیں، ایسے میں انہیں ایک مشترکہ ہدف پر ایک ساتھ کام کرنے کے لیے آمادہ کرنا بھی ایک بہت مشکل ٹاسک ہے۔ لیکن مقاصد کا حصول شاید مشکل ہے لیکن یہ ناممکن نہیں۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ یوروایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے علاقائی روابط کو وسعت دے۔ کوئی ملک خطے میں تنہا نہیں رہ سکتا۔ ایک ایسا دور کہ جب دنیا میں تقسیم میں اضافہ ہورہا ہے اور براعظموں میں متعدد تنازعات سر اٹھا رہے ہیں، ایسے میں شنگھائی تعاون تنظیم ممالک کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف کرتے ہوئے ایک ساتھ مل کر عوام کے مفادات کی خاطر مشترکہ اہداف کے لیے کام کریں۔
کانفرنس میں رکن ممالک نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یکطرفہ تجارتی پابندیاں عالمی امن کے لئے خطرہ ہیں۔ ریاستیں اپنے اپنے اہداف کے ساتھ آگے بڑھیں لیکن کسی دوسری ریاست کے معاملات میں مداخلت سے پورا خطہ متاثر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس فورم پر پاکستان نے اپنے علاقوں میں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے افغان سرزمین کے استعمال کا مسئلہ بھی اٹھایا، سرحد پار دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار پاکستان ہے اور اس فورم پر بھارت سمیت دیگر ممالک کو یہ پیغام دینا بہت ضروری تھا کہ پاکستان پر دہشتگردی کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے وہ غلط ہے بلکہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ملک ہے۔
اس کے علاوہ رکن ممالک کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور وزیراعظم پاکستان نے اس فورم پر موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات پر پاکستان کا مقدمہ اچھے طریقے سے پیش کیا۔