وہ شاخ ہی نہ رہی 

امیدوار بننے کیلئے جو شرائط اور تقاضے ہیں، ان کے حساب سے آپ پوری طرح نااہل ہیں۔ یہ اس اطلاع کا خلاصہ ہے جو آکسفرڈ یونیورسٹی والوں نے جاری کی اور پی ٹی آئی والوں نے بہ ہزار (بصد نہیں) حسرت و یاس کے ساتھ وصول پائی۔ ’’مرشد‘‘ نے چند ماہ پہلے آکسفرڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھااور پی ٹی آئی والوں نے اسی وقت ان کی بھاری اکثریت سے کامیابی کی پیشگی خبر سنا دی تھی۔ ایک ٹی وی شو میں تو یہاں تک کہا گیا کہ مرشد کا چانسلر بننا ان کیلئے نہیں، خود آکسفرڈ یونیورسٹی کیلئے باعث اعزاز و افتخار ہو گا۔ بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو والا معاملہ تھا۔ یونیورسٹی کی پوری تاریخ میں اتنا ’’پڑھا لکھا ریسرچ سکالر‘‘ پہلے کہاں آیا ہو گا جس نے جرمنی جاپان کی سرحد پر پوری انڈسٹریل سٹیٹ دریافت کر لی تھی۔ لیکن خیر، میں نے اور مجھ جیسے کئی دوسرے ناہنجاروں نے اس وقت یہ بدشگونی کر دی تھی کہ ملک ریاض کی منی لانڈرنگ اور 190 ملین پائونڈ کیس والے معاملے کے بعد یہ بہت مشکل ہے کہ مرشد کو امیدوار ہونے کا اہل قرار دیا جائے۔ افسوس، بدشگونی والی یہ بات پوری ہو گئی۔ 
ہوا یہ بھی کہ 190 ملین پائونڈ والے کیس کا علم سارے کے سارے متعلقہ لوگوں کو نہیں تھا لیکن جونہی مرشد نے امیدواری کا اعلان کیا، وہ بات جس کا سب کو علم نہیں تھا، سب کے علم میں آ گئی۔ رسمی کارروائی کے طور پر یونیورسٹی نے قانونی فرم سے مشاورت کی، قانونی فرم نے جواب میں لکھا،ایسا مت کرنا۔ سو یہ کہانی ختم ہوئی۔ 
ہمارے ٹی وی اینکروں میں سے بعض کی پیش گوئی تھی کہ مرشد یہ الیکشن تین تہائی اکثریت سے جیت جائیں گے۔ ناظرین نے اس پر واہ وا کی۔ بعض دوسروں کا خیال تھا کہ نہیں، مرشد چار چوتھائی اکثریت سے جیتیں گے، اس پر بھی واہ وا ہوئی۔ کچھ ایسے تھے جنہوں نے ان دونوں کی رائے مسترد کر دی اور دعویٰ کیا کہ مرشد پانچ تہائی اکثریت سے جیتیں گے۔ اس پر تو وہ ’’واہ وا‘‘ ہوئی کہ بس واہ وا، واہ وا۔ !
______
خیر، یہ بحث اتنی اہم نہیں تھی، اصل اہمیت اتفاق رائے کو تھی اور اتفاق رائے یہ تھا کہ اتنی عدیم المثال کامیابی سے جیتنے کے بعد مرشد کی رہائی پکّی ہو جائے گی۔ آخر آکسفورڈ یونیورسٹی کے عزّت مآب چانسلر کو جیل میں رکھنا کوئی خالہ جی کا واڑہ ہے کیا۔ مرشد باہر آ جائیں گے اور ان کے باہر آتے ہی حقیقی آزادی والے انقلاب کا راستہ بھی ہموار ہو جائے گا۔ 
لیکن اس دوران اور بھی کئی واقعات ہوئے۔ مثلاً آکسفورڈ یونیورسٹی کے طلبہ ہی کا جلوس نکل آیا جس نے احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ ایسے شخص کو امیدوار بنانے کی اجازت نہ دی جائے جس نے 190 ملین پا?نڈ کی کرپشن کی ہے۔ اور کچھ ’’انسانی اثاثوں‘‘ کی بات بھی کی کہ مرشد نے ان اثاثوں کو، ربع صدی گزرنے کے باوجود بھی اپنانے سے انکار کر رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔
بہرحال، وہ شاخ ہی نہ رہی جس پر حقیقی آزادی نے آشیانہ سازی کرنی تھی، رہے نام اللہ کا…بہرحال، اس سارے ماجرے پر اب پی ٹی آئی کا ردّعمل شدّت سے نیک مطلوب ہے۔ شاید آج کل میں وہ اس فیصلے کیخلاف سٹے آرڈر کیلئے اسلام آباد میں کسی سے رجوع کریں۔ 
______
تقسیم ہند کے موقع پر لارڈ مائونٹ بیٹن نے جو کیا، پاکستان کے لوگ اسے کبھی نہیں بھلا سکتے۔ یہ لارڈ مائونٹ بیٹن ہی تھا جس کے غیر منصفانہ فیصلوں کی وجہ سے مشرقی پنجاب کے کچھ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہونے سے رہ گئے اور یوں ان علاقوں میں ایک بڑا قتل عام ہوا جس پر جوابی قتل عام ہوا۔ کئی لاکھ اور بعض تاریخ نگاروں کے حساب سے 10 لاکھ افراد دونوں طرف سے قتل ہوئے۔ یہ تاریخ کے بڑے قتل ہائے عام میں سے ایک تھا اور میں تو کہوں گا، اس کا براہ راست ذمہ دار مائونٹ بیٹن تھا۔
مائونٹ بیٹن کے کردار پر درجنوں کتابیں لکھی گئیں اور ہزارھا مضامین۔ اب پاکستان کے نامور تاریخ دان ڈاکٹر اقبال چاولہ کی کتاب مائونٹ بیٹن۔ کیبنٹ مشن اینڈ پراونشل بائونڈریز Mount Batten, cabinet mission and provincial Bounderiesچھپ کر آئی ہے جس میں اس ناانصافی کا تفصیل سے ذکر کیا گا ہے۔ اقبال چاولہ پنجاب یونیورسٹی میں ہسٹری ڈیپارٹمنٹ کے ڈین رہ چکے ہیں اور اس سے پہلے ان کی ایک کتاب لارڈ ویول پر بھی کتاب لکھ چکے ہیں جسے ایچ ای سی نے بہترین کتاب کا ایوارڈ دیا۔ 
حد بندی کے حوالے سے تفصیلی بحث سے قطع نظر اس کتاب میں کچھ اور باتیں بھی بہت سے قارئین کیلئے نئی ہیں۔ مثال کے طور پر تحریک پاکستان میں سندھ کے اندر کا احوال تاریخ پاکستان سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے اتنی تفصیل سے پہلے کبھی سامنے نہیں آیا۔ سندھ اس معاملے میں پنجاب سے کہیں آگے تھا۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے قتل عام پر سندھ کے اندر عوامی ردّعمل بہت شدید تھا۔ کتاب میں سندھ کی سیاست پر بھی دلچسپ تفصیلات ہیں۔ بلوچستان کی اس وقت کی پیچیدہ سیاست کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ خاص طور سے یہ احوال کہ انگریزی بلوچستان (شمالی حصہ) صوبائی اسمبلی کے بغیر ہی چلایا جا رہا تھا۔ 
پنجاب میں قتل عام کی کچھ تفصیل اور لارڈ ما?نٹ بیٹن کی ناکامی کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے اور اس میں کچھ نئی معلومات بھی، حوالوں کے ساتھ، موجود ہیں۔ مائونٹ بیٹن کے کردار کے بھی کچھ نئے گوشے سامنے آتے ہیں۔ 
کتاب ایسی دلچسپ اور ’’مسٹ ریڈ‘‘ MUST READ نوعیت کی ہے کہ اس کے اردو ترجمے کی بھی فوری ضرورت ہے۔ 
______
اسرائیلی وزیر اعظم نے ایران پر جوابی حملوں کیلئے اہداف کی منظوری دے دی ہے۔ سرکاری اعلان میں اہداف کا ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن یہ خبر پہلے ہی آ چکی ہے کہ امریکہ نے اسرائیل سے کہہ دیا ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی اثاثوں اور تیل کے ذخائر پر حملے نہ کرے۔ چنانچہ یہ ٹھکانے تو بمباری سے بچے رہیں گے اور ایک اطلاع یہ ہے کہ حکومتی عہدیداروں اور پاسداران انقلاب کے مراکز کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ حملہ کب ہو گا، اس بارے میں دو اطلاعات ہیں۔ ایک یہ کہ دو ہفتے کے اندر اندر، دوسری یہ کہ تین ہفتے تک۔ 
ادھر ایک ایرانی رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے اس ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہتھیار ہیں جو اسرائیل پر چلائے جائیں گے۔ یہ دعویٰ غالباً ازراہ تفنّن کیا گیا ہے۔ پچھلے دنوں ایران نے اسرائیل پر بہت بڑا حملہ کیا تھا، سینکڑوں میزائل ایک ساتھ چلا دئیے تھے لیکن اس حملے میں ایک بھی اسرائیلی مرا نہ زخمی ہوا۔ ستم ظریفی البتہ یہ ہوئی کہ ایک میزائل کا خالی کھوکھا مغربی کنارے میں ایک فلسطینی نوجوان پر آگرا وہ موقع پر ہی چل بسا۔ اتنے بڑے حملے کی یہ واحد ’’کریڈیبلٹی‘‘ تھی۔ 
اس حملے میں ایران نے خالی کھوکھے کیوں چلائے، ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہتھیار کیوں نہیں چلایا۔ شاید کوئی اس پر روشنی ڈال سکے اگرچہ روشنی ڈالنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ 
اسرائیل کو امریکہ نے میزائل حملے روکنے والا نیا نظام ’’تھاڈ‘‘ دے دیا ہے۔ اب کے ایران یہ کہہ کتا ہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم سے بھی خطرناک میزائل تو ہیں لیکن چلانے کا فائدہ نہیں، تھاڈ جو اسرائیل کے پاس آ گیا ہے اس لئے مطلب اب کے بھی، جوابی حملے میں کھوکھے ہی چلائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی ذہانت کا جہاں حیرت

 پہلے چاند پر جانے کی بات ہوتی تو لوگ حیران رہ جاتے لیکن جب انہوں نے عملی طور پر دیکھا تو انہیں یقین آیا یہ سب انسانی دماغ کا ...