پی ٹی آئی کی صفوں سے لوگوں کی تلاش

دنیا کے بے شمار افراد کی طرح میں بھی طویل عرصہ اس گماں میں مبتلا رہا کہ انٹرنیٹ کی بدولت متعارف ہوئے پلیٹ فارم ہمیں وسیع القلب بنانے کے علاوہ دیگر ممالک کے زیادہ قریب لانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذکورہ پلیٹ فارموں نے مگر ہمیں بطور فرد خود پرستی میں مبتلا کرنا شروع کردیا۔ اس سے بھی کہیں زیادہ بڑا سانحہ یہ ہوا کہ ہم اپنے ذہنوں کو کشادہ کرنے کے بجائے کنوئیں کے مینڈکوں جیسا رویہ اختیار کرچکے ہیں۔
جمعرات کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بطور ’’سینئرصحافی و تجزیہ کار‘‘ میں سینہ ٹھونک کر اعلان کرتا کہ حکومت ایک بار پھر ’’عجلت‘‘ میں بلائے سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے آئین میں اپنی پسند کی ترامیم منظور کرواپائے گی یا نہیں۔ نظر بظاہر مولانا فضل الرحمن بھی آئینی ترامیم کی منظوری کے حوالے سے کوئی ’’متفقہ‘‘ مسودہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے تب بھی قانون سازی کے لئے مختص دونوں ایوانوں میں حکومت کو دو تہائی اکثریت میسر نہیں ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے ووٹ مل جانے کے باوجود حکومت کو سینٹ میں مزید ایک ووٹ درکار ہوگا۔ قومی اسمبلی میں پانچ ایسے ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔ تحریک انصاف سے ’’لوٹے‘‘ ڈھونڈے بغیر دوتہائی اکثریت کا حصول کسی صورت ممکن نہیں۔ حکومتی اتحاد اور اس کے سیاسی وغیر سیاسی سرپرست مگر مبینہ طورپر آئین کو ’’اپنے انداز میں پڑھتے ہوئے‘‘ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ایک کثیر تعداد سے ایک پنجابی محاورے کے مطابق ’’نکونک‘‘ یعنی تنگ آچکے ہیں۔ وہ مصر ہیں کہ ’’آزاد‘‘ عدلیہ کسی بھی حکومت کو ٹکنے نہیں دیتی۔ خود کو ریاست کا بالادست ادارہ بنانے کو تلی بیٹھی ہے۔ اسے قواعد وضوابط کی لگام ڈال کر ’’اوقات‘‘ میں لانا ہوگا۔ معاملہ ’’آریاپار‘‘ کی صورت اختیار کرچکا ہے اور کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے۔ جنگ اور محبت میں ہرشے جائز والے تصور کواستعمال کرتے ہوئے حکومت تحریک انصاف کی صفوں سے ’’لوٹے‘‘ ڈھونڈنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ اس کی ضد بالآخر کامیاب ہوگی یا نہیں؟ اس سوال کا جواب فراہم کرنا میرے لئے فی الوقت ممکن نہیں۔ اپنی رسائی کی حد تسلیم کرنے کی وجہ سے اگر آپ مجھے ’’سنیئر صحافی وتجزیہ کار‘‘ افراد کی صفوں میں شمار کرنا نہیں چاہتے تو سوبسم اللہ۔
گزشتہ دو دِنوں سے فکر مجھے یہ لاحق ہے کہ پاکستان میں طویل عرصے کے بعد ایک اہم عالمی تنظیم کا اجلاس ہوا۔ اس میں شرکت کے لئے دنیا کے دو بڑے ملکوں کے وزرائے اعظم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ یہ دونوں ملک یعنی روس اور چین ایٹمی قوتیں بھی ہیں۔ اقوام متحدہ میں انہیں ویٹو کا اختیار میسر ہے۔ روس کسی زمانے میں امریکہ کے ہم پلہ ’’سپرطاقت‘‘ شمار ہوتا تھا۔ وسطی ایشیاء اور یورپ کے کئی ممالک اُن دنوں ’’سوویت یونین‘‘ کہلاتے روس کے صوبوں کی طرح ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔ دسمبر1979میں لیکن اس ملک کی افواج افغانستان میں خود کو ’’کمیونسٹ‘‘ کہلاتی حکومت کے تحفظ کے لئے کابل میں داخل ہوگئیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے انہیں وہاں گھیر کر دیوار سے لگانے کی ٹھان لی۔ امریکہ کو اس کے ہدف کے حصول میں مدد دینے کے لئے ہمارے جنرل ضیاء الحق ’’افغان جہاد‘‘ کی سرپرستی کوڈٹ گئے۔ بالآخر سوویت افواج ذلیل وخوار ہوکر افغانستان سے نکل گئیں۔ ’’افغان جہاد‘‘ نے مگر سوویت یونین کو اقتصادی وسیاسی اعتبار سے کھوکھلا بناڈالا۔ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ پاکستان کو مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
سوویت یونین ٹوٹ گیا تو امریکہ کو ’’اچانک‘‘ یاد آیا کہ پاکستان انہیں ’’دھوکہ دے کر‘‘ ایٹم بم بنارہا ہے۔ ہمیں اقتصادی پابندیوں میں جکڑدیا گیا۔ بات وہیں ختم نہ ہوئی۔ افغانستان کو ’’آزاد‘‘ کروانے کے لئے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک سے جو نوجوان ’’جہادی‘‘ اس خطے میں تشریف لائے تھے ان کا ایک طاقتور ترین گروہ ’’القاعدہ‘‘ کی صورت افغانستان اور ہمارے ان دنوں ’’قبائلی علاقوں‘‘ میں منظم ہونا شروع ہوگیا۔ ان سے متعلقہ ایک گروہ نے نائن الیون کی واردات ڈالی اور پاکستان ’’افغان جہاد‘‘کے نظر بظاہر ’’گناہ‘‘ میں کلیدی کردار ادا کرنے کا کفارہ ادا کرنے کے لئے افغانستان پر ایک اور جنگ مسلط کرنے کے لئے امریکہ کا ’’فرنٹ لائن اتحادی‘‘ ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں ہمارے وطن میں انتہا پسندوں نے جو تباہی پھیلائی وہ اپنی جگہ ایک الم ناک داستان ہے۔
اصل موضوع سے ایک بارپھر توجہ ہٹ گئی ہے۔ بنیادی طورپر آج کے کالم کی تمہید باندھنے کے بعد اطلاع آپ کو یہ دینا تھی کہ ہمارے ہاں ایس سی او کا جو اجلاس ہوا ہے اس میں شرکت کے لئے سب سے بڑا وفد روس سے آیا تھا۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق اس ملک کے وزیر اعظم کے ہمراہ دیگر حکومتی اداروں کے تقریباََ 300کے قریب لوگ اسلام آباد آئے۔ بطور صحافی میرا فرض تھا کہ میں آپ کو یہ بتاتا کہ وہ ملک جسے دیوار سے لگانے میں پاکستان نے 1980کی دہائی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اس کے وزیر اعظم اتنے بڑے وفد کے ساتھ اسلام آباد کیوں تشریف لائے تھے۔ جن اہداف کو نگاہ میں رکھتے ہوئے وہ یہاں تشریف لائے ان کے اہم ترین نکات کیا تھے۔ وہ پاکستان کے قلیل اور طویل المدت مفادات کے حصول میں کس قدر مددگار ثابت ہوسکتے تھے۔ میری بدقسمتی کہ میں اپنے ہی اٹھائے کسی ایک سوال کا کماحقہ جواب دینے کے قابل نہیں ہوں۔ عرصہ ہوا عملی صحافت سے ریٹائر ہوجانے کے باوجود اپنی لاعلمی کے بارے میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شرمندگی محسوس کررہا ہوں۔
ایس سی او کی کانفرنس کے دوران میرے بے شمار نوجوان ساتھی پریس سنٹر میں متحرک نظر آئے۔ یہ کالم لکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ مجھے ان میں سے چند ایک کو اپنی عمر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طعنے دے کر اس امر کو اُکسانا چاہیے تھا کہ وہ ہمارے لئے پتہ لگائیں کہ روس کے وزیر اعظم اتنے بڑے وفد کے ساتھ اسلام آباد کیوں آئے ہیں۔ جو بات اب سوچ رہا ہوں وہ مگر ایک پشتو محاورے کے مطابق لڑائی کے بعد یاد آیاگھونسہ ہے جسے اپنے ہی منہ پر مارنا ہوتا ہے۔
مجھ سمیت ہر پاکستانی صحافی کی توجہ فقط اس سوال پر مرکوز رہی کہ ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کیلئے آئے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر اپنے پاکستانی ہم منصب سے ون آن ون ملاقات کریں گے یا نہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کا اسلام آباد آنا پاک-بھارت تعلقات میں طویل برسوں سے سرد سے سرد تر ہوتی برف پگھلانے میں مددگار ثابت ہوگا یا نہیں۔ میرے چند پیارے ساتھی محسوس کررہے ہیں کہ بھارتی وزیر خارجہ کا دورہ پاک-بھارت تعلقات میں کچھ بہتری لانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ نہایت احترام سے اصرار کروں گا کہ نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ایس سی او کا وہ اجلاس جو بھارتی شہر گوا میں گزشتہ برس ہوا تھا وہاں بھارت کا رویہ زیادہ معاندانہ تھا۔ ہماری جانب سے مذکورہ اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری بطور وزیر خارجہ شریک ہوئے تھے۔ انہوں نے گوا میں قیام کے دوران کشمیر کے حوالے سے جو بیانات دئے انہوں نے جے شنکر کو آگ بگولہ بنادیا۔ تمام عمر سفارتکاری کی نذر کرنے کے باوجود موصوف تندوتیز زبان میں جواب دیتے رہے۔ گوا کے مقابلے میں اسلام آباد قیام کے دوران بھارتی وزیر خارجہ کا رویہ نسبتاََ ’’دوستانہ‘‘ تھا۔ ایس سی او کے اجلاس سے ان کا خطاب مگر ’’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی ذہانت کا جہاں حیرت

 پہلے چاند پر جانے کی بات ہوتی تو لوگ حیران رہ جاتے لیکن جب انہوں نے عملی طور پر دیکھا تو انہیں یقین آیا یہ سب انسانی دماغ کا ...