اگر ملک میں لاہو ر، کراچی، پشاور اور کوئٹہ جیسے بڑے شہروں یا صوبائی مرکزیت سے ہٹ کر چاروں صوبوں کے دیگر شہروں و علاقوں کا جائزہ لیں تو ہر جگہ پسماندگی کو لے کر ایک ہی طرح کے مسائل ہیں وہاں کے عوام کا جس کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں مسائل کو لے کر بلوچستان میں ملک دشمن عناصر بلوچ نوجوانوں کو ورغلا کر دہشت گردی کی طرف راغب کرتے ہیں۔ سندھ میں قوم پرست تنظیمیں پس ماندہ علاقوں کی محرومیوں کو اپنی مرضی کا رنگ دے کر جب ریلیاں نکالتے ہیں تو انھوں نے ملک کے خلاف پوسٹر اٹھا رکھے ہیں جن پر علیحدگی کے حوالے سے نعرے درج ہوتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں’گریٹر پختونستان‘ کا فتنہ اتنا ہی پرانا ہے جب سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا ہے۔ یہ فتنہ دب ضرور جاتا ہے لیکن وہاں متحرک غیر ملکی امداد سے چلنے والی این جی اوز جب بھی موقع ملتا ہے پشتون قوم پرستی کو ہوا دے کر صوبے میں انتشار برپا کر کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ پنجاب میں جنوبی پنجاب کے اضلاع میں موجود پسماندگی اور اس کے خلاف وہاں کے عوام احتجاج ضرور کرتے ہیں۔ ’تخت لاہور کی غلامی‘ جیسی فقری بازی بھی ہوتی ہے لیکن ان اضلاع کے عوام سرائیکی صوبہ کے مطالبہ سے ہٹ کر دوسری کسی ایسی سوچ کو پنپنے نہیں دیتے جو ملک کی جغرافیائی سلامتی کے برخلاف ہو۔ حالانکہ جنوبی پنجاب میں بھی ’سرائیکستان‘کا نعرہ لگا کر چند قوم پرست عناصر نے ملک کے دیگر صوبوں میں چلنے والی قوم پرست تنظیموں کی طرز پر عوام کو ورغلانے کی کوشش ہوتی رہیں ہیں لیکن انھیں پذیرائی نہیں مل سکی۔ کچھ این جی اوز کی طرف سے جنوبی پنجاب کے تعلیمی اداروں میں منعقد کیے گئے سیمینار و مذاکروں میں سیکولرازم کے ثمراعات سے شروع کیے گئے اپنے لیکچروں میں ماحول کو گرمانے بعد جب علاقائیت اور لسانیت کے حوالے سے وہاں موجود نوجوانوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کی کوشش کی گوئی تو انھیں مایوسی ہوئی کیونکہ وہاں موقع پر ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے بھی باہر نکل کر لسانیت اور قوم پرستی کے خلاف بولتے پائے گئے۔ تاہم مندرجہ بالا تمہید کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر چاروں صوبوں کے پسماندہ اضلاع میں بسنے والوں کی اکثریت اگر اپنے ردعمل کو ظاہر نہیں کرتی تو انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنی پسماندگی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کا عمل جاری رکھیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت اپنے سیاسی مفادات سے ہٹ کر اگر چاروں صوبوں میں وہاں کے پسماندہ اضلاع اور ان میں بسنے والے عوام کو درپیش مسائل کا بغور جائزہ لیں تو انھیں احساس ہوگا کہ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مزید صوبوں کی ضرورت ناگزیر ہوچکی ہے۔ لاہو رمیں بیٹھے ہوئے حکام بالا اور وزیراعلیٰ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ جنوبی پنجاب کے دور افتادہ اضلاع و شہروں میں وہاں کے عوام کو روزمرہ پیش آنے والی مشکلات کا ایسا مستقل حل تلاش کرسکیں جو زمینی حقائق کے مطابق ان کی دادرسی کا سبب ہو۔ دیگر صوبوں میں بھی مرکز سے دور دراز شہروں میں بسنے والے اس طرح کی صورتحال سے دوچار نہیں ان میں تعلیم، صحت اور مواصلات کا نظام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان پسماندہ اضلاع میں زیر تعلیم بچوں کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے معیاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی طرح بہتر ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں۔ وہ جب اپنے پسماندہ شہروں سے کالج کی سطح پر تعلیم مکمل کرنے کے بعد بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں میں جائیں تو انھیں ’پینڈو‘ جیسے القابات سے نہ نوازا جائے۔ وہاں کے عوام کو اپنے کسی عزیز کو لاحق جان لیوا بیماری کے علاج کے لیے صوبائی مرکز کا رخ نہ کرنا پڑے۔ ان کے شہروں میں بھی کشادہ صاف ستھری سڑکیں اور بچوں کے کھیلنے کے لیے جگہ جگہ محفوظ پارک ہوں۔ لیکن یہ اسی صورت ممکن ہے جب صوبائی حکومت اپنے اختیارات دوردراز کے پسماندہ اضلاع کو منتقل کرنے پر راضی ہو جو کہ نئے صوبوں کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔
'چھوٹے صوبوں میں حکومتی نظام زیادہ مؤثر انداز چلایا جاسکتا ہے، اسی نقطے کے پیش نظر دنیا کے بہت سے ملکوں نے پورے ملک کی عوام کے لیے یکساں ترقی کے مواقع پیدا کرنے اور ملک کے وسائل اور انتظامی انفراسٹرکچر کو ہر جگہ ایک ہی طرح سے بروئے کار لانے کے لیے صوبوں کو تعداد میں اضافہ کے ساتھ ہی وہاں کی حکومتوں کو داخلی طور پر بہت سے معاملات میں خود مختاریوں سے نوازا تاکہ ہر علاقہ یکساں حقوق سے مستفید ہوسکے۔ نئے صوبوں کی پاکستان میں تشکیل کا مطلب یہ نہیں کہ لسانی یا قومیت کی بنیاد پر صوبائی تقسیم ہو بلکہ انتظامی ضروریات اور ملک کے دستیاب وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے صوبوں کی تشکیل عمل میں لائی جائے جس میں وہاں کی حکومتیں اپنے مالی معاملات میں خود مختار ہوں۔ جب ہر صوبے کی آبادی کو ترقی کے لیے یکساں مواقع میسر ہوں گے تو اس طرح قوم پرستی اور لسانیت کو لے کر انتشار پھیلانے والوں کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اپنے منفی ہتھکنڈوں کو بروئے کار لا کر پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے عوام کے ذہنوں میں ابہام پیدا کرسکیں۔ چھوٹے صوبوں میں اختیارات دے کر ترقی کرنے والے چند ممالک پرنظر ڈالیں تو ترکی، جرمنی، چین اور سوئیزرلینڈ کی مثال سامنے ہے۔ جرمنی 16 صوبوں پر مشتمل ہے اور اب وہاں صوبوں کی تعداد 34 تک بڑھائی جارہی ہے۔ بنگلہ دیش اس وقت انتظامی طوپر آٹھ ڈویڑنوں (صوبوں) پر مشتمل ہے جس میں ان کا ہر ڈویڑن انتظامی طو ر پر خود مختار ہے۔ جنوبی افریقہ نے ترقی کا آغاز اس وقت کیا جب ملک کو انتظامی طورپر 9 صوبوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ملائیشیا 13 صوبوں پر مشتمل ہے جہاں ہر صوبے کا اپنا آئین ہے۔ اور تو اور ہمارے ہمسایہ اسلامی برادر ملک ایران کے 31 صوبے ہیں تو پھر پاکستان کو مزید صوبوں میں تقسیم کرنے میں کیا قباحت ہے؟ ممکن ہے ہماری بڑی سیاسی جماعتیں سمجھتی ہوں کہ مزید صوبوں کی تشکیل سے ان کے سیاسی اثر و رسوخ میں کمی آئے گی تو انھیں عوام میں جڑوں اور اپنی سیاسی استعداد پر بھروسا کرتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ جس سے انکی سیاسی ساکھ نہ صرف مضبوط ہوگی بلکہ عوام میں بھی احساس درکار ہوگا ان کے ملک میں سیاسی قیادت صرف اپنے سیاسی مفادات کے بارے میں ہی نہیں سوچتے عوام کے مسائل کا درد اور ادراک بھی رکھتے ہیں۔