تعلیم کا زیورہی معاشرے کا حسن ہے

عورت ہمارے مذہب اسلام کی طرف سے مجبور ہے نہ بے بس، یہ قرآن وحدیث سیرت وصحابیات سے بھی واضح ہے۔ اسلام نے عورت کو حاکم، حکمت، سیاست، قیادت،انتظامات،مشاورت ہر چیز کا ترجمان بنایا ہے۔ رب کائنات نے مرد اور عورت کی تخلیق کے درجے کو برابر رکھا۔ واضح فرمان ہے کہ’’ اس سے پھر اسی کا جوڑ بنایا‘‘، اسلام کا سورج طلوع ہوا تو عورت کا استحصال بند ہوگیا، عورت کو دی جانے والی ذلت کو گرہ لگ گئی۔ عورت کو وقار اور حرمت سے نوازا گیا، اسلام نے بھی عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دیے اور عورت کی حیثیت مستحکم کی۔اس کرہ ارض پر عورت کے حقوق کی کہیں بھی پامالی کی جائیگی تو اس کیلئے آواز بلند کرنے سے کوئی قانون بھی نہیں روک سکتالیکن افسوس ہے کہ افغانستان میں اعلیٰ تعلیم کے وزیر مولوی ندا محمد ندیم کے خط کے مطابق طالبان حکومت نے یونیورسٹیوں میں خواتین کے لیے تعلیم پر پابندی عائد کردی ہے۔
طالبان حکومت کا یہ حکم فوری طور پر لاگو کردیا گیا ہے اور اس پر آئندہ پیش رفت تک عمل جاری رہے گا۔ اس حکم کے تحت خواتین کے لیے تعلیم تک رسائی روکی گئی ہے۔
یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ یہ خبرسننے کے بعد سے رو رہی ہیں۔ افغانستان میں پہلے ہی خواتین کو اکثر سیکنڈری سکولوںمیں جانے سے روک دیا گیا ہے۔ تین ماہ قبل افغانستان بھر میں ہزار وں لڑکیوں اور خواتین ے یونیورسٹی میں داخلے کا امتحان دیاتھا۔ مگر طالبان نے مضامین کے انتخاب کے حوالے سے ان پر پابندیاں لگائیں۔ خواتین پرعائد کردہ پابندی کے تحت وہ وٹنری سائنس‘ انجینئرنگ‘ اکنامکس ارو زراعت میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں جبکہ صحافت میںبھی ان کا جانا مشکل ہو گیا تھا۔2021ء میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کی یونیورسٹیوں میں مرد و خواتین کیلئے الگ الگ کلاس روم اور داخلی راستے متعارف کرائے گئے ۔ طالبات کو صرف خواتین پروفیسر یا معمرمرد پڑھا سکتے ہیں۔
طالبان دور میں افغانستان کا تعلیمی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ گذشتہ سال امریکی و دیگر غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد سے تربیت یافتہ ادبی شخصیات ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہیں۔
ملک کی معیشت جو کہ گذشتہ دہائیوں کے دوران غیرملکی امداد پرمنحصر تھی‘ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ فلاحی تنظیمو ں نے جزوی (اور کچھ نے پوری طرح) اپنی امداد روک دی ہے۔ انکی جانب سے یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب طالبان نے لڑکیوں کو سیکنڈری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے سے روکا۔افغانستان سکولوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کئی ماہ سے اپنی تنخواہوں کے منتظر ہیں۔ 
امریکہ‘ برطانیہ اور اقوام متحدہ نے طالبان حکومت کے اس حالیہ فیصلے کی مذمت کی ہے۔ امریکہ اوردیگر مغربی ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے قبل ملک میں خواتین کی تعلیم میںبہتری کی شرط رکھی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے طالبان کے فیصلے کو ’’شرمناک‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کیلئے تعلیم حاصل کرنے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ انکے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’’طالبان روز بروز یہ واضح کرتے جا رہے ہیں کہ وہ افغان شہریوں‘ خاص کر خواتین کے بنیادی حقوق کا احترام نہیں کرتے۔‘‘نومبر میں حکام نے دارالحکومت کابل کے باغات میں خواتین کے داخلے پرپابندی لگائی اور دعویٰ کیا کہ ان کے آنے سے قبل وہاں اسلامی قوانین کی پیروی نہیں کی جا رہی تھی ۔
اس پابندی پر ردعمل دیتے ہوئے ایک طالبہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انکے خیال میں طالبان خواتین اور انکی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ طالبان نے ’’وہ واحد پل تباہ کر دیا جو مجھے میرے مستقبل سے جوڑ سکتا تھا۔‘‘’’میں کیسے ر دعمل دوں؟ مجھے یقین تھاکہ میںپڑھ کر اپنا مستقبل بدل سکتی ہوں یا اپنی زندگی میں روشنی لا سکتی ہوں۔ لیکن انہوں نے اسے تباہ کردیا۔‘‘
ایک اور خاتون نے طالبان کے قبضے کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھنے کی کوشش میں درپیش مشکلات کا ذکر کیا۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم اپنے بھائی‘ والد‘ معاشرے کے ساتھ اور یہاں تک کہ حکومت سے لڑے۔ ہم اپنی تعلیم جاری رکھنے کے قابل ہونے کیلئے ایک مشکل صورتحال سے گزرے۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت کم از کم میںخوش تھی کہ میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر اپنے خواب پورے کر سکوں گی۔ لیکن اب میںخود کو کیا بتائوں؟‘‘
افغان یونیوسٹیوں میں خواتین پر پابندی کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا صارفین بھی طالبان حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔لڑکیاں صرف چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ جبکہ سمیہ فاروقی کے مطابق طالبان نے لاکھوں لڑکیوں کی زندگی خراب کی ہے اور ان کے خواب توڑ دیئے ہیں۔شہرِ زاد اکبر نے لکھا کہ ’’طالبان میرے ملک کی لڑکیوں اور خواتین کا مستقبل تباہ کرنے کے مشن پر ہیں۔‘‘جبکہ رمیتا نوائی نے کہا کہ ’’آپ کو یاد ہوگا جب طالبان نے اقتدار سنبھالا اور پہلی پریس کانفرنس میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ وہ خواتین کو ملازمت اور تعلیم کی اجازت دیں گے ۔’’اُن کے جھوٹ کو پور ی دنیا میں پھیلایاگیا۔ طالبان ہمیشہ سے خواتین اور ان کے جنس سے نفرت کرتے آئے ہیں او ر وہ یہ رویہ جاری رکھیںگے۔‘‘
نتالی گونیلا پلاتس لکھتی ہیں کہ ’’طالبان نہیں بدلے۔ افغان شہری ایک سال سے ز یادہ عرصے سے دنیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت آزادانہ سوچ‘ خواتین/بچوں کے بنیادی حقوق کو اہمیت نہیں دیتے۔ سب کو قابو میں کرنے کیلئے یہ ہو رہا ہے۔‘‘
نوبل انعام یافتہ خواتین کے حقوق کی کارکن ملالہ یوسف زئی نے مغربی ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ مغربی ممالک افغانستان میں خواتین کی حالتِ زار کونظر انداز نہ کریں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن