ڈالر جرنلزم

ڈالر جرنلزم سے مراد وہ صورتحال ہے جس میں غیر ملکی فنڈنگ مقامی میڈیا کو متاثر کرتی ہے، خاص طور پر ایسے ممالک میں جیسے پاکستان، جہاں بیرونی وسائل کا کردار میڈیا کی آزادی کے بارے میں سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس اصطلاح سے مراد وہ پیچیدہ تعلق ہے جو مالی فوائد اور مقامی صحافتی ماحول کے درمیان پیدا ہوتا ہے، جس سے ادارتی جانبداری، صحافتی دیانت داری میں کمی اور بیانیے کی ترجیحات میں تبدیلیاں آتی ہیں۔
ڈالر جرنلزم کا تصور پاکستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عالمی رجحان ہے جس میں میڈیا کے ادارے غیر ملکی ذرائع سے مالی معاونت حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں، یہ عمل بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں نمایاں طور پر بڑھا۔ ابتدا میں، ایسی غیر ملکی فنڈنگ کو ایک بڑی نعمت سمجھا جاتا تھا، جو معاشی مشکلات میں گھرے میڈیا اداروں کو اہم مالی معاونت فراہم کرتی تھی۔ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs)، غیر ملکی حکومتیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں نمایاں مالی معاونین کے طور پر سامنے آئیں۔ 
تاہم، غیر ملکی فنڈز کے بہائو کے ساتھ ہی بیرونی ایجنڈوں نے نئے زاویے متعارف کرائے۔ مالی استحکام کی تلاش میں، میڈیا کے ادارے اکثر اپنے ادارتی مواد کو اپنے مالی معاونین کی ترجیحات اور مفادات کے مطابق ڈھالنے پر مجبور ہوئے۔ اس ہم آہنگی نے پاکستان میں صحافت کے معیار اور راہ میں فائدے اور نقصان دونوں پہلو پیدا کیے ہیں۔ ایک طرف، غیر ملکی فنڈنگ نے نئے زاویے متعارف کرائے، تحقیقی رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی کی، اور ایسے مسائل کو اجاگر کرنے میں مدد دی جو عام طور پر نظرانداز کیے جاتے تھے۔ دوسری طرف، اس نے پریس کی غیر جانبداری کے حوالے سے خدشات پیدا کیے ہیں، کیونکہ کچھ میڈیا اداروں پر الزام لگایا گیا کہ وہ غیر ملکی مفادات کے مطابق بیانیوں کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے صحافتی دیانت داری اور مقامی مسائل کی حقیقی عکاسی پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ڈالر جرنلزم کے ارد گرد موجود تنقیدات کے باوجود، اس نے پاکستانی میڈیا کے منظرنامے میں کچھ مثبت تبدیلیاں بھی پیدا کی ہیں۔ سب سے نمایاں فائدہ میڈیا کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری رہا ہے۔ غیر ملکی فنڈنگ نے میڈیا اداروں کو جدید آلات اور ٹیکنالوجی میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کے قابل بنایا، جس سے رپورٹنگ اور پروڈکشن کے مجموعی معیار میں بہتری آئی ہے۔ اسکے علاوہ، بین الاقوامی فنڈنگ نے صحافیوں کیلئے تربیتی پروگراموں کے قیام میں بھی مدد کی ہے، جس سے انہیں اپنی مہارتوں کو بہتر بنانے اور اعلیٰ پیشہ ورانہ معیارات پر عمل پیرا ہونے کا موقع ملا۔
مزید برآں‘ ان مالی معاونتوں نے میڈیا اداروں کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منتقل ہونے میں مدد فراہم کی، جس سے خبروں تک رسائی ایک وسیع تر سامعین کیلئے ممکن ہو گئی۔ اسکے نتیجے میں ایک زیادہ متحرک اور ہمہ جہت میڈیا کا ماحول وجود میں آیا‘ جو مقامی اور عالمی سطح پر مختلف مسائل کا احاطہ کرنے اور مختلف طبقات تک پہنچنے کے قابل ہو گیا ہے۔ 
اگرچہ غیر ملکی اداروں کا اثر و رسوخ صحافتی آزادی کے بارے میں جائز خدشات کو جنم دیتا ہے، لیکن میڈیا کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری اور صحافیوں کی صلاحیت میں اضافہ ایسے ناقابل انکار فوائد ہیں جو پاکستان کے میڈیا منظرنامے کی جدیدیت میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والے منصوبے اکثر ایسے معاملات پر روشنی ڈالتے ہیں جو پاکستانی مرکزی دھارے کے میڈیا میں تاریخی طور پر کم توجہ پاتے رہے ہیں۔ انسانی حقوق، صنفی مساوات، اور ماحولیات کے تحفظ جیسے موضوعات کو زیادہ اہمیت ملی ہے، جو بڑی حد تک بین الاقوامی مالی معاونت کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ ان معاونتوں کے ذریعے، ڈالر جرنلزم نے میڈیا کوریج کے دائرہ کار کو نمایاں طور پر وسعت دی ہے، جس سے اہم سماجی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے جو عوامی مکالمے اور معاشرتی تبدیلی کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں۔ اس اثر نے بالآخر نظرانداز کیے جانے والے موضوعات کو قومی گفتگو میں لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اگرچہ ڈالر جرنلزم کے کچھ فوائد ہیں، لیکن اس کے نقصانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عمل میڈیا کی آزادی اور اس کی ساکھ کیلئے شدید خطرات پیدا کرتا ہے۔ سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ مواد کو غیر ملکی مالی معاونین کے ایجنڈے کیمطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ جو میڈیا ادارے غیر ملکی فنڈز پر انحصار کرتے ہیں، وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ان کہانیوں کو ترجیح دے سکتے ہیں جو ان کے مالی معاونین کے مفادات سے ہم آہنگ ہوں۔ اس کے نتیجے میں کچھ نقطہ نظر کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکتا ہے، جبکہ دیگر کو کم کیا جاتاہے یا مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے عوامل واقعات کی ایک مسخ شدہ تصویر پیش کر سکتے ہیں، اور عوام کو حقیقت کا ایک جانب دارانہ ورژن ملتا ہے۔ غیر جانبداری کا خاتمہ میڈیا کے اس بنیادی کردار کو کمزور کر دیتا ہے، جس کا مقصد ایک متوازن اور غیر جانبدارانہ تصویر پیش کرنا ہوتا ہے جو بیرونی اثرات سے پاک ہو۔غیر ملکی فنڈنگ پر انحصار صحافتی اخلاقیات کے معیارات کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ صحافیوں پر اکثر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ ایسا مواد تیار کریں جو ان کے مالی معاونین کے مفادات کے مطابق ہو، جس کے نتیجے میں خود ساختہ سنسرشپ کا رجحان پیدا ہو سکتا ہے۔ متنازعہ یا حساس مسائل کو حل کرنے میں ہچکچاہٹ پیشے کی ساکھ کو کمزور کرتی ہے، جس سے نہ صرف انفرادی صحافیوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ میڈیا پر عوام کا اعتماد بھی متاثر ہوتا ہے۔
مزید یہ کہ، اس قسم کے انحصار کی وجہ سے میڈیا انڈسٹری اقتصادی طور پر کمزور ہو جاتی ہے۔ امداد فراہم کرنے والے ممالک کی سیاسی یا معاشی صورتحال میں تبدیلی اچانک فنڈز کی بندش کا سبب بن سکتی ہے، جس سے میڈیا ادارے مالی مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے پاکستان میں ایک خود کفیل اور مضبوط میڈیا نظام کی ترقی میں رکاوٹ آتی ہے، جس سے انڈسٹری کو آزادانہ طور پر ترقی کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ، ایک ایسا میڈیا نظام جو بیرونی فنڈنگ پر منحصر ہو، اسے نہ صرف ساکھ کے بحران کا سامنا ہوتا ہے بلکہ پائیداری کے بحران کا بھی۔پاکستان میں ڈالر جرنلزم کے اثرات کو کئی مثالوں کے ذریعے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، بعض میڈیا اداروں نے جمہوریت اور انسانی حقوق کو فروغ دینے کیلئے بین الاقوامی تنظیموں سے مالی معاونت حاصل کی ہے۔ اگرچہ اس امداد نے عوامی آگاہی کو بڑھایا ہے اور اہم مسائل پر وکالت کو فروغ دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی  جانبداری کے الزام اور بیرونی مداخلت کے خدشات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ اسی طرح، غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیموں کی مالی مدد سے چلنے والے تحقیقاتی صحافتی منصوبوں نے اہم سماجی مسائل کو اجاگر کیا ہے، لیکن بعض اوقات ان منصوبوں کو بیرونی ایجنڈوں کے ساتھ وابستگی کے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ڈالر جرنلزم کے کثیر جہتی اثرات کے پیش نظر، یہ ضروری ہے کہ اس کے فوائد کو زیادہ سے زیادہ کرنے اور اس کے موروثی خطرات کو کم کرنے کے لیے توازن قائم کیا جائے۔ یہ توازن کچھ دانشمندانہ اقدامات کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا اداروں کو اپنے مالیاتی معاونین کے بارے میں شفافیت پیدا کرنی چاہیے، خاص طور پر جب غیر ملکی ڈونرز شامل ہوں۔ ان مالیاتی تعلقات کو عوامی طور پر ظاہر کرنے سے چھپے ہوئے ایجنڈوں یا بیرونی مداخلت کے خدشات کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مزید برآں‘ سخت احتساب کے فریم ورکس کا تعارف اس بات کو یقینی بنائے گا کہ صحافتی عمل کی ساکھ محفوظ رہے، قطع نظر اسکے کہ فنڈز کہاں سے آرہے ہیں۔غیر ملکی فنڈنگ پر انحصار کو کم کرنے کیلئے میڈیا اداروں کو اپنے مالی وسائل کو متنوع بنانا چاہیے۔ متبادل آمدنی کے ماڈلز کی تلاش، جیسے کہ سبسکرپشن سروسز، عوامی فنڈنگ کی مہمات، اور مقامی اشتہارات کے مواقع کا حصول مالی خودمختاری فراہم کر سکتا ہے، جس سے غیر ملکی مفادات کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، مقامی صحافیوں کی تعلیم اور ترقی میں سرمایہ کاری کرنا انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ آزاد‘ تربیت یافتہ صحافیوں کی ایک ٹیم تیار کر کے، پاکستان ایک ایسا میڈیا نظام تشکیل دے سکتا ہے جو اعلیٰ اخلاقی معیارات کی پابندی کرے اور صحافتی ساکھ کو برقرار رکھے۔ مناسب وسائل اور حمایت سے آراستہ مقام ی صحافی عوامی دلچسپی کے مواد کو تخلیق کر سکتے ہیں، جو حقیقی طور پر مقامی مسائل اور خدشات کی عکاسی کرتا ہو۔پاکستان میں ڈالر جرنلزم کا اثر ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ ایک طرف، اس نے میڈیا کے بنیادی ڈھانچے میں قابل ذکر بہتری پیدا کی ہے اور اہم لیکن روایتی طور پر کم رپورٹ شدہ مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ تاہم، دوسری طرف، اس نے ایجنڈا پر مبنی کہانیوں کے فروغ اور صحافتی ساکھ کے ممکنہ نقصان کے خدشات کو بھی جنم دیا ہے۔ اس پیچیدہ منظر نامے سے مؤثر طریقے سے رہنمائی حاصل کرنے کیلئے اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔ اس میں فنڈنگ میں شفافیت پیدا کرنا، متنوع آمدنی کے ذرائع تلاش کرنا، اور مقامی صحافت کی بنیاد کو مضبوط کرنا شامل ہے۔ ان اصولوں کو اپنا کر، پاکستان ایک ایسا میڈیا ماحول تشکیل دے سکتا ہے جو نہ صرف مالی طور پر مستحکم ہو بلکہ غیر جانبداری اور اخلاقی صحافت کے اصولوں پر بھی سختی سے عمل پیرا ہو۔

عاطف محمود  ۔۔ مکتوب آئرلینڈ

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی ذہانت کا جہاں حیرت

 پہلے چاند پر جانے کی بات ہوتی تو لوگ حیران رہ جاتے لیکن جب انہوں نے عملی طور پر دیکھا تو انہیں یقین آیا یہ سب انسانی دماغ کا ...