وہ لکی مروت کی رہنے والی ایک سادہ لیکن بلند ہمت لڑکی تھی ۔اس کاڈاکٹر صاحب سے غائبانہ تعارف کیبل، ٹی وی،ان کی کیسٹس اور یوٹیوب ویڈیوز کے ذریعے تھا وہ ان کی شخصیت ، ذہانت، مطالعہ، علم و فضل ، انداز بیاں ، تحمل و برداشت اور ہر طرح کے مجمع میں ایک خاص مستقل مسکراہٹ سے بے حد متاثر تھی ان کی باتیں اس کے اندر ایک تحریک پیدا کرتی تھیں ،زندگی میں آگے بڑھنے کی تحریک، کچھ کر گزرنے کی تحریک ، اسلام کا بول بالا کر نے کی تحریک ،اسلام کے سنہری اصولوں میں ہر مسلے کا حل ڈھونڈ پانے کی تحریک !!!
اسکا خوب تھا کہ کاش وہ کبھی اصل زندگی میں بھی انہیں دیکھ سکے ! وہ مسائل جن کا حل وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی تلاش نہیں کر پائی ، وہ حالات جن کا سامنا کرتے ہوئے اس کا دل خون کے آنسو روتا ہے ، انسانوں کا روپ دھارے وہ بھیڑیے جو اس کے سامنے کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور انہیں لگام ڈالنے والا کوئی نہیں ! کاش کسی وقت وہ یہ تمام احوال انکے گوش گزار کر کے ان حالات سے نکلنے کا راستہ جان سکے اسے خود سے بھی ذیادہ یقین تھا کہ جب اس کا سوال ان تک پہنچے گا تو ان کا جواب آسانیاں پیدا کریگا ، ایسی تحریک دے گا جس سے وہ حالات کو سدھارنے کیلئے کم از کم اپنے حصے کی شمع جلا پائے گی ا ور پھر وہ دن آن پہنچا جب اسکے تصورات اور اسکی روح اور ضمیرکو روشن رکھنے والی وہ باکمال اور متحرک شخصیت اسکے سامنے موجود تھی اس لڑکی نے نہایت سیدھے اور صاف لہجے میں کمال اعتماد کے ساتھ بالترتیب اپنا سوال بیان کیا جس کا واضح لب لباب کچھ یوںکہ وہ جس جگہ سے تعلق رکھتی ہے وہ مکمل طور پر اسلامی معاشرہ ہے وہاں کے تمام لوگ مذہب سے بہت ذیادہ شغف رکھتے ہیں لیکن پھر بھی اس لڑکی کی سمجھ سے بالاتر امر یہ تھا کہ اس سب کچھ کے باوجودوہاں پر بدکاری، منشیات ، جنسی بے راہ روی ،حتی کہ پیڈوفیلیا جیسے گناہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اور پرسان حال کوئی نہیں ،روکنے والا کوئی نہیں، آواز اٹھانے والا کوئی نہیں گویا حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہے کہ کوئی ٹھہرتا بھی نہیں حادثہ دیکھ کر !!!
یہ سیدھا ،صاف ، تکلیف دہ اور دل کو دہلا دینے والا سوال سن کر ڈاکٹر صاحب لڑکی کے الفاظ کے مطابق بجائے وزڈم کے ساتھ جواب دینے کے حیرت انگیز طور پر ایک مضحکہ خیز ہنسی ہنسے۔۔۔جیسے سامنے کھڑا انسان کوئی جوکر ہے جس نے کہا ہے کہ ہمارے اسلامی معاشرے میں خواتین بلا ضرورت گھروں سے نہیں نکلتیں ’’بلا ضرورت تو ہم مرد بھی نہیں نکلتے ۔کیوں بھائیو آپ میں سے کوئی بلا ضرورت گھر سے نکلتا ہے ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اردگرد موجود لوگوں سے پوچھتے ہوئے انتہائی غیر سنجیدہ اور غیر مہذب انداز میں جواب کا آغاز کیا اور اسکے بعد بھی جو تکلیف دہ جملے کہتے رہے ان کا بہت تذکرہ ہو چکا اور آپ سب بخوبی واقف ہیں ان کا موقف یہ تھا کہ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ اسلامی معاشرہ ہے اور دوسری جانب بتایا جا رہا ہے کہ وہاں جرائم بلکہ گناہ جڑ پکڑ چکے ہیں تو یہ دونوں باتیں متضاد ہیں اسلامی معاشرہ میں ایسا ہو ہی نہیں سکتا تو ڈاکٹر صاحب کے مطابق سوال میں کنٹراڈکشن تھا اور سوال کرنے والے کو شرمندہ ہو کر معافی مانگنا چاہئے تھی سوال کرنے والی لڑکی شرمندہ تو ضرور ہوئی لیکن اپنے سوال پر نہیں بلکہ اپنے یقین پر جو اس نے جواب دینے والے پر کر رکھا تھا ۔
ہمیں یاد آ رہا ہے کہ 1991ء میں جب ڈاکر صاحب پاکستان تشریف لائے توخاص طور پر ڈاکٹر اسرار احمد سے ملے تھے انہیں بتایاتھا کہ وہ اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور ڈاکٹر اسرار احمد سے اس حوالے سے زریں اصول سمجھنا چاہتے ہیں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اپنے بقول انہیںپوری زندگی میں شیخ احمد دیداد کے بعد جس عالم دین نے متاثر کیا وہ ڈاکٹر اسرار احمد ہیں جنہیں ڈاکٹر ذاکر نائیک عالم اسلام میںاردو زبان کے سب سے بڑے مبلغ بھی قرار ریتے رہے تو اسوقت 1991ء میں جب ڈاکٹر ذاکر نائیک نے محترم اسرار احمد صاحب سے پاکستان کے اسلامی ادارے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں اسلامی ادارے کس طریقے سے کام کرتے ہیں تو ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے انہیں جواب دیا تھا کہ’’ پاکستان میں آپ کو اسلامی ادارے تو بہت ملیں گے لیکن ان میں اسلام نہیں ملے گا ‘‘یہ ایک حقیقت تھی جس کا اعتراف بلاشبہ ایک زیرک اور حقیقت پسند مبلغ ہی کر سکتا تھا لیکن حیرت ہمیں اس بات پر ہے کہ اسوقت کے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو توڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی اس بات میں ہرگز’’کنٹراڈکشن‘‘دکھائی نہیں دیاتھا !
یہ بات صرف سوال کرنے والی لڑکی کے شرمندہ ہونے پر ہی ختم نہیںہوتی بلکہ اکثریت جو ڈاکٹر صاحب کی تہہ دل سے منتظر تھی؎ان کی راہ تک رہی تھی وہ بھی افسردہ افسردہ اور شرمندہ سی ہے !
شرمندہ تو یتیم بچیوں کو تحفظ دینے والے ،انہیں ایک محٖفوظ مستقبل دینے والے قابل ٖفخر ادارے ’’پاکستان سویٹ ہوم ‘‘کے منتظم ، خدمت خلق کے علمبردارزمرد خاں بھی ہیںجن کے اعمال و کردار کی بلاوجہ ہی دھجیاں اڑا دیں گئیں شرمندہ تو وہ بھی ہیں اس لمحے پر جب ان کے ذہن میں ڈاکٹر صاحب کو یتیم بچیوں کے ہاتھوں سے شیلڈ دلوا نے کا اپنے تئیں نیک خیال آیا تھا !
اورجن بچیوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی کہ وہ ایک عالمی شہرت یافتہ عالم فاضل انسان کے دست مبارک میں شیلڈ تھمانے جا رہی ہیں شرمندہ تو وہ بچیاں بھی ہیں !!!کہ وہ جن ہاتھوں کو دست شفقت سمجھ رہی تھیںان ہاتھوں پر تو شیلڈ وصول کرنے سے قبل ہی سمجھ میں نہ آنے والا لرزہ طاری ہو گیا ۔۔
شرمندہ تو پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز والے بھی ہیں کہ وہ ایک سٹیٹ گیسٹ کی قدرو منزلت نہ پہچان سکے اور خبط عظمت کے شکار سٹیٹ گیسٹ کو اپنا مقام مرتبہ اپنے مقام سے نیچے اتر کر خود یاد کروانا پڑا ۔۔۔پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کو ڈاکٹر صاحب کومکمل پروٹوکول دینا ہی چاہئیے تھا اس حقیقت سے درکنار کہ ڈاکٹر صاحب نے سفربھی پی آئی اے میں نہیں بلکہ قطر ائیرویزمیں کیا تھا لیکن پھر بھی جب انہوں نے کہا ہے کہ انہیں قطر ائیر ویزمیں سفر کے دوران پروٹوکول پی آئی اے سے ہی چائیے تھا کیونکہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سٹیٹ گیسٹ ہیں تو ایسا ہی ہونا چاہئے تھا اور اس فاش غلطی پر بھی ہم ڈاکٹر صاحب سے بے حد شرمندہ ہیں !!!
ہاں البتہ ایک بات ضرور ہے جو ڈاکٹر ذاکر نائیک نے سولہ آنے درست کہی وہ ان کا سوال تھا جو انہیں نے عجب جھنجھلاہٹ میں کیا تھا کہ ’’آخر پاکستانیوں کو کیا ہو گیا ہے ‘‘ اس بات سے ہم بھی اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستانیوں کو واقعی کچھ ہو گیا ہے اور ہوتا چلا جا رہا ہے ۔۔۔ لیکن کیا ہے ؟ سبب کیا ہے ؟ یہ سب کیسے رکے گا ؟ کوئی روکے گا بھی یا نہیں ان سوالوں کو ہمارے پاس کوئی جواب نہیں جس پر ہم ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر صاحب سے شرمندہ ہیں !!!