جمعۃ المبارک‘14 ربیع الثانی 1446ھ ‘ 18 اکتوبر 2024ء

پی ٹی آئی کے بانی آکسفورڈ یونیورسٹی کیچانسلر کی دوڑ سے باہر 
پی ٹی آئی والے اور انکے سوشل میڈیا کے دیوانے ہر وقت یہ طے شدہ خبر یا خوشخبری سناتے نہیں تھکتے تھے کہ انکے کپتان اب جلد ہی آکسفورڈیونیورسٹی کے چانسلر بننے والے ہیں۔ بعض افلاطونی تجزیہ نگار انہیں اس عہدے پر فائز بھی کر چکے تھے۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات پختہ کی جا رہی تھی کہ اتنی بڑی پوسٹ یعنی عہدہ سنبھالنے کے بعد پھر دیکھنا کون انہیں جیل میں رکھتا ہے۔ یہ کپتان کی مقبولیت کی معراج ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی والے ان کو چانسلر بنانے میں مسرت محسوس کریں گے۔ اب یہ صورتحال سامنے آنے پر یہ سب
ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں
کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کیلئے بھی
کہہ کر دل کو تسلی دے رہے ہیں
 اور کچھ ’’حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے‘‘پر اکتفا کر رہے ہیں۔ بہرحال اپنے اپنے ذوق کی بات ہے‘ کون کس شعر کو پسند کرتا ہے۔ اب آکسفورڈ والوں نیجن افراد میں سے چانسلر کاچنائو ہکرنا ہے۔ انکے نام جاری کر دیئے ہیں ان میں اپنے ممدوح کپتان کا نام شامل نہیں یعنی انہیں اس دوڑ سے باہر کر دیا گیا ہے۔ اب کہا یہ جا رہا ہے کہ سزایافتہ کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ہو سکتا۔ یہ تو بڑی زیادتی ہے۔ اتنے عرصے سے انکے پارٹی والے انہیں چانسلر بننے کا جو خواب دکھا رہے تھے۔ اس کا کیا بنے گا۔ پہلے ہی اس بارے میں یونیورسٹی والوں نیوضاحت کیوں نہیں کی تاکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو جو دکھ اب ہوا ہے‘ یہ تو نہ ہوتا۔ اب تو تکلیف اپنی جگہ جو سبکی ہوئی ہے‘ وہ الگ ہے۔ ہم ویسے بھی جذباتی لوگ ہیں‘ اپنے رہنمائوں کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں۔ چاہے عمر ایوب کے ابا ہوں یا بے نظیر کے یا مریم کے اور بلاول کے ہی نہیں‘ سلمان اور قاسم کے ابا بھی ان میں شامل ہیں۔ سادہ لوح کارکن انکی اپنے ابا سے بھی زیادہ عزت کرتے ہیں۔ جس کا یہ عیار سیاست دان فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے بچوں کو برطانیہ‘ امریکہ‘ فرانس میں پڑھنے کیلئے کاروبار کے لئے بھیجتے ہیں اور عوام کے بچوں کو جیلوں میں جانے اور سڑکوں پر مار کھانے کی راہ دکھاتے ہیں۔ خدا جانے کب ہمارے عوام جاگیں گے اور انہیں عقل آئے گی کہ یہ سب پتھرکیبت ہیں جن کے سینے میں دل نہیں‘ انہیں بھلا عوام سے کیا لینا دینا‘ وہ تو صرف ووٹ ڈالنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ ان سیاست دانوں کا اصل مرکز و محور تو صرف اقتدار ہوتا ہے یا اعلیٰ عہدے۔ 
٭…٭…٭
امریکی جاسوس ادارے کو کرڑوں پاکستانیوں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے‘ اسرائیل کی رپورٹ۔ 
اس خبر سے تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے پاس اب یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف پاکستانیوں کے ڈیٹا کی نگرانی کرے اور پتہ لگائے کہ کون کون پاکستانی اسکے اصلاح کے مطابق دہشت گردانہ مواد اور سر گرمیوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ بس اتنی سی بات کیلئے اس نے پانچ کروڑ پاکستانیوں کا ڈیٹا چھان مارا۔ بات تو رسوائی کی ہے‘ مگر سچ بھی ہے جو امریکی تحقیقاتی ادارہ یہ کام کر رہا ہے‘ اسے تو خود شرم آئی ہوگی اپنی بیکار کی مشقت پر۔ کیونکہ ان کروڑوں پاکستانیوں کے ڈیٹا میں صرف چند فیصد ہی امریکی مطلوبہ مقاصد کے مطابق دہشت گردانہ مواد دیکھتے اور شیئر کرتے ہونگے جبکہ اکثریت شاید 80 تا 90 فیصد انٹرنیٹ استعمال کرنے والے دل پشوری کرنے والے واہیات بیہودہ مواد کو دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انکی بلا سے دنیا میں انہیں کون کون چیک کر رہا ہے‘ وہ اپنی موج مستی میں مگن رہتے ہیں۔ یہ جو دن رات کروڑوں پاکستانی موبائل فون یا کمپیوٹر پر سر جھکائے گہری سوچ میں نظریں گاڑے ہوتے ہیں‘ یہ کسی تعلیمی نہیں کاروباری یا سائنسی تحقیقات میں نہیں ‘ اپنی موج مستی میں مگن ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے تو امریکی تحقیقاتی یعنی جاسوسی اداروں کو تو بہت مایوسی ہوئی ہوگی۔ ویسے آپس کی بات ہے‘ یہ رپورٹ ایک اسرائیلی محقق نے مرتب کی ہے۔ جو لگتا ہے پاک امریکہ تعلقات سے جلتا ہے اور دونوں کے درمیان رخنہ ڈالنا چاہتا ہے۔ کیونکہ وہ چاہتا ہی نہیں کہ اسرائیل کے علاوہ امریکہ کا کوئی اور محبوب نظر ہو۔ کیا اسرائیل والے نہیں جانتے کہ اسرائیل کے بعد بھارت امریکہ کا محبوب ہے جسے اسرائیل کی طرح سات نہیں ہزاروں خون معاف ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ فلسطین اور بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام انکی املاک کی تباہی اسے نظر نہ آتی ہو۔ بہرحال اب پاکستانیوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ممنوعہ کالعدم جماعتوں اور تنظیموں سے متعلق مواد دیکھنے اور شیئر کرنے سے پرہیز کریں ورنہ انکے غیرملکی سفر‘ ملازمت اور کاروبار کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ امریکہ کو شرم آنی چاہیے کہ وہ دوسرے ممالک میں جاسوسی کا بڑا فعال نیٹ ورک چلا کر انکی سلامتی اور خودمختاری کے خلاف عمل کرتا ہے۔ اور یہ فراموش کر رہا ہے کہ سب سے زیادہ دہشت گردی ہو یا کسی بھی قسم کا منفی لچر مواد‘ خود امریکہ بہادر سے ہی تیار و جاری ہوتا ہے اور شیئر کیا جاتا ہے۔ کبھی اس بارے میں بھی تحقیقات کی جائے کہ یہ کیوں ہوتا ہے اور کون کرتا ہے اور اسکے مقاصد کیا ہیں۔ 
٭…٭…٭
بارڈر نہیں کھولے تو بلوچستان میں امن نہیں آسکتا‘ مولانا ہدایت اللہ
خدا مولانا ہدایت کو ہدایت دے جو ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ بھی صوبائی اسمبلی میں بیٹھ کر جہاں وہ اپنے علاقے اور عوام کی خدمت کیلئے آئے ہیں۔ صوبے کے سرحدوں اور ملک کے مفادات کی نگہبانی کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں۔ اب وہی اگر ایسی باتیں کریں گے جو ملک کیلئے نقصان دہ ہے تو باقی کیا رہ جائیگا۔ بارڈر کھولنے سے سمگلروں اور دہشت گردوں کی تو موج ہو جائے گی۔ چند لوگ فائدہ اٹھائیں گے مگر صوبے کو نقصان ہوگا۔ محاصل نہیں ملے تو کام کیلئے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ ایران بارڈر پر سخت چیکنگ سے پٹرول اور افغانستان بارڈر سے اسلحہ و منشیات کا سمگلنگ کیا صوبے کی ترقی کیلئے ضروری ہے۔ یہ تو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ اس سے اگر صوبے کے عوام کا فائدہ ہوتا تو چلیں کوئی بات کرتا۔ یہ تو سمگلر مافیا کو کھلی چھوٹ دینے والی بات ہے۔دوسری طرف جو وزیراعلیٰ نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس وقت صوبے میں علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں گڑبڑ اور افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں‘ اس لئے ایسی باتیں کرنے سے اجتناب کیا جائے جو ناجائز ھیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور گوادر سے الیکشن جیت کر اسمبلی میں آئے ہیں۔ انہوں نے مہارت سے گوادر کو حق دو تحریک میں نام کمایا اور ابھی تک اس کام کو لے کر چل رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم نے انہیں ایک مقبول عوامی رہنما قرار دیا ہے۔ بے شک گوادر کو ہر طرح کا تحفظ اور حق دیا جائے۔ مگر یہ جو بارڈر کھولنے والا فلسفہ ہے‘ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اور اسی طرح یہ مولانا کی طرف سے عملاً ایرانی تیل اور افغانستان سے اسلحہ و منشیات کی سمگلنگ کی حمایت ہے۔ اسکی اجازت کوئی ملک نہیں دے سکتا۔ اس طرح مولانا قوم پرستوں اور عسکریت پسند گمراہ عناصر کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہونگے۔ یہی بیانیہ کالعدم پی ٹی ایم کے منظور پشین کا بھی ہے۔ ...اب ایمل ولی. یا محمود خان اسکی حمایت کریں تو الگ بات ہے مگر یہ جماعت اسلامی والوں کو کیا ہوگیا ہے۔ وہ اس طرح کی باتیں کرکے کیا طالبان اور سمگلنگ مافیا کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ کیا جائز ناجائز کے بارے میں جماعت اسلامی کا منشور تبدیل ہو گیا ہے۔ 


٭…٭…٭
طالبان نے میڈیا پر جانداروں کی تصاویر چھاپنے دکھانے پر پابندی لگادی۔ 
اگر میڈیا پر انسانوں کی تصاویر نہیں چلیں گی تو کیا جانوروں اور پرندوں کی تصاویر سے کام چلایا جائیگا۔ طالبان لگتا ہے عقل استعمال ہی نہیں کرتے۔ انہیں دماغ استعمال کرنے کا شوق نہیں یا وہ دماغ سے خالی ہیں۔ انکے ایسے اقدامات سے نہ صرف دنیا میں جگ ہنسائی ہوتی ہے بلکہ اسلام کے بارے میں لوگوں کو منفی پراپیگنڈہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہمارے افغان بھائی ابھی تک پتھر کے دور کہہ لیں‘ یا زمانہ تاریک میں رہ رہے ہیں اسے میں رہنا پسند کرتے ہیں۔۔ اسی طرح عورتوں کے حوالے سے پھر وہی پرانی تنگ نظری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ انکی تعلیم پر مکمل پابندی سخت کردی گئی ہے۔ پہلے ہی وہ نہ باہر جا سکتی ہیں نہ ملازمت کر سکتی ہیں۔ تنہا سفر کا تو تصور ہی نہیں۔ وہ طالبان ٹوپی والے برقعے کو اسلامی برقعے سمجھتے ہیں تو انکی مرضی‘ ایسا برقعہ کسی بھی اسلامی ملک میں رائج نہیں۔ یہ مکمل افغان معاشرے کا پردہ یعنی برقعہ ہے۔ اب اسکے علاوہ باقی سب حجاب کو غلط کہنا زیادتی ہے۔ ورنہ عرب ممالک کا حجاب ہی اصل اسلامی برقعہ کہلانے کا زیادہ حقدار ہے۔ ایک طرف دنیا میں طالبان کو خواتین اور انسانی حقوق کے حوالے سے اپنا ریکارڈ درست کرنے کا کہہ رہی ہے‘ عوام کے حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے‘ مگر طالبان وہی اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں۔ خود افغانستان میں انکی پالیسیوں کیخلاف خواتین‘ مذہبی اقلیتیں اور شمالی افغانستان کے فارسی بولنے والے ان سے نالاں ہیں‘ اب ایسے الٹے سیدھے فیصلے اور بھی انکی راہ میں مشکلات بڑھا سکتے ہیں۔ مگر طالبان کسی کی سنتے ہی نہیں۔ انکے نزدیک حق اور سچ وہی ہے جو وہ کہتے ہیں۔ اسی لئے دنیا میں کسی کے ساتھ افغانوں کی بنتی نہیں۔ ویسے بھی خود کو عقل کل سمجھنے والوں کا یہی المیہ ہے۔ اب تو لگتا ہے برقعہ پہن کر بھی کسی مرد یا عورت کو میڈیا پر آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔تو کیا گد ھوں ،گھوڑوں کو اب میڈیا پر کام کی تربیت دی جائے گی

ای پیپر دی نیشن