حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ خواہش تھی کہ جب ان کا وصال ہو تو انہیں روضہ رسول ؐ میں آپ اور سیدنا صدیق اکبرؓکے ساتھ دفن کیا جائے۔ آپ نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمرؓ کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا اور کہا کہ حضرت عاشہؓ کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ کیا عمر ؓ روضہ رسول ؐ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہو سکتے ہیں۔ قربان جائیں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓکے جذبہ ایثار سے۔ آپ نے فرمایا یہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی لیکن آج میں اپنے اوپر حضرت عمر ؓ کو ترجیح دیتی ہوں۔
جب عبد اللہ بن عمرؓ واپس گئے اور حضرت عمرؓ کو بتایا کہ حضرت عائشہؓ نے اجازت دے دی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے لیے اس خواب گاہ زیادہ کوئی چیز اہم نہیں۔ آپ نے فرمایا جب میرا انتقال ہو جائے تو پھر حضرت عائشہؓ کے پاس جانا دوبارہ اجازت طلب کرنا اگر اجازت ملے تو مجھے روضہ رسول ؐ میں دفن کرنا نہیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔ ( بخاری )
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی جذبہ ایثار بہت زیادہ تھا۔ جب صحابہ کرام ؓ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے آئے تو انصار نے ایثار و قربانی کی ایسی مثال قائم کی جس کی مثال رہتی دنیا تک نہیں ملے گی۔ انصار صحابہ نے مہاجرصحابہ کے لیے بڑی محبت کے ساتھ رہائش ، خوراک کا انتظام کیا۔ ان کو اپنی زمین اور باغات میں حصہ دار بنایا اور مہاجر بہت جلد تجارت اور مزدوری کر کے اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی صحابی کو بکری کا سر بطور تحفہ پیش کیا گیا۔ اس نے سوچا میرا فلاں بھائی اور اس کے گھر والے اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ اس نے وہ گوشت اس کے پاس بھیج دیا۔ پھر اسی گوشت کو ہر ایک صحابی اسی ایثار کے جذبہ کے ساتھ دوسرے کے گھر بھیجتا رہا یہاں تک کہ وہ گوشت سات گھروں سے ہوتا ہوا دوبارہ پہلے صحابی کے پاس آ گیا۔(شعب الایمان )
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور وہ انہیں ( مہاجرین) کو اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود شدید ضرورت ہو ‘‘۔
اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیاں ایسے کئی جذبہ ایثار کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے سے زیادہ دوسروں کو ترجیح دی۔ آج اس پْر فتن اور مہنگائی کے دور میں اسی ایثار کی ضرورت ہے تا کہ غرباء و مساکین دو وقت کا کھاناعزت کے ساتھ کھا سکیں۔