امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے بریفنگ کے دوران بھارت میں جوہری مواد کی چوری اور غیر قانونی فروخت کے متعدد واقعات کے بارے میں یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ سے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کیا یہ امریکا کے لیے باعث تشویش ہے؟ اس پر میتھیو ملر نے کہا ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی جانب سے کی گئی درخواست سے آگاہ ہیں، ہم جوہری پھیلائوکے خطرات کے حوالے سے موثر پالیسی ردعمل کی ٹریکنگ، تیاری اور اس پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہیں۔
بھارت نیو کلیئر سپلائر گروپ کا رکن بننے کی سر توڑ کوششیں کرتا رہا ہے جبکہ اس کے ایٹمی پروگرام کی سکیورٹی اتنی مخدوش ہے کہ اس سے تو نیو کلیئر پاور کا سٹیٹس ہی واپس لے لیا جانا چاہیے۔پاکستان کی طرف سے ایک عرصے سے نشاندہی کی جا رہی ہے۔مگر اقوام متحدہ اور امریکہ جیسی طاقتوں نے بھارت کے خلاف کبھی کوئی ایکشن نہیں لیا۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی آئی اے ای اے بھی اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔گزشتہ ہفتے پاکستانی مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پڑوسی ملک سے جوہری مواد چوری اور فروخت ہورہا ہے، رواں سال سو ملین ڈالر کا تابکاری مواد پکڑا جاچکا ہے۔ انتہائی تابکار، زہریلا مادہ کالیفورنیم ایک گروپ کی غیرقانونی ملکیت میں پایا گیا۔ 2021 میں بھی کالیفورنیم کی چوری کے تین واقعات سامنے آئے تھے۔ اقوامِ متحدہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔بھارت کا ایٹمی پروگرام کتنا زیادہ غیر محفوظ ہے اس کی تصدیق امریکی تھنک ٹینک کی طرف سے بھی کی جا چکی ہے۔بیلفرسینٹر برائے سائنس و بین الاقوامی امور ہارورڈ کینیڈی اسکول کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھاکہ بھارت امریکا ایٹمی معاہدوں میں کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے جس کے باعث مسائل جنم لے رہے ہیں۔ امریکی حکام نے دو ہزار آٹھ کے دورے میں بھارتی ایٹمی ریسرچ سینٹر کے سیکورٹی انتظامات کو انتہائی ناقص قرار دیاتھا۔اس کے بعد بھارت کے خلاف کارروائی میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیا جانا چاہیے.۔