ایس سی او سربراہی کانفرنس ‘ خطے کے عوام کیلئے کامیابیوں کی نوید

Oct 18, 2024

اداریہ

شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک نے تنازعات کو مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے تجارت‘ مالیات اور ثقافتی تعلقات سمیت ایک خوشحال‘ پرامن‘ محفوظ اور ماحولیاتی طور پر پائیدار کرہ ارض کی تشکیل کیلئے سیاست اور سلامتی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ دو روزہ ایس سی او کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ کے اجلاس کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیہ میں خطے کی صلاحیت کو بہتر بناتے ہوئے رکن ممالک کی پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی بشمول ڈیجیٹل معیشت‘ تجارت‘ ای کامرس‘ فنانس اور بنکنگ سرمایہ کاری‘ اعلیٰ ٹیکنالوجی‘ غربت کے خاتمہ‘ صحت کی دیکھ بھال‘ روایتی اور غیرروایتی طب‘ زراعت‘ صنعت‘ ٹرانسپورٹ‘ لاجسٹک کنیکٹیویٹی اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی پر زور دیا گیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم نے خطے میں مستحکم معاشی اور سماجی ترقی کو یقینی بنانے کی خواہش کا اعادہ کرتے ہوئے 2030ء تک کی مدت کیلئے ایس سی او کے رکن ممالک کے کثیر جہتی تجارتی اور اقتصادی تعاون کے پروگرام پر عملدرآمد کی اہمیت پر زور دیا۔ کانفرنس میں ٹیکنالوجی اور ای کامرس میں ترقی کی وجہ سے عالمی معیشت میں نمایاں تبدیلیوں کو نوٹ کیا گیا اور تحفظ پسندانہ اقدامات اور تجارتی رکاوٹوں سے سرمایہ کاری میں کمی اور سپلائی چین میں خلل پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ کانفرنس میں بیلاروس‘ ایران‘ قازقستان‘ کرغزستان‘ پاکستان‘ روس‘ تاجکستان اور ازبکستان نے چین کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ اقدام کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے اس منصوبے کو یوریشین اکنامک یونین کے ساتھ مربوط کرنے کیلئے جاری مشترکہ کوششوں کو اجاگر کیا۔ 
اعلامیہ میں مساوی بات چیت کو آسان بنانے کیلئے علاقائی صلاحیت اور بین الاقوامی تعاون سے فائدہ اٹھانے کی اہمیت پر زور دیا گیا اور اقتصادی ڈائیلاگ پر اتفاق کرتے ہوئے غربت کے خاتمے کیلئے تعاون کو ضروری قرار دیا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ عوام کو سیاسی‘ سماجی‘ معاشی ترقی کے انتخاب کا حق حاصل ہے‘ ریاستوں کو خودمختاری‘ آزادی‘ علاقائی سالمیت کا باہمی احترام اور طاقت کے استعمال کی دھمکی نہ دینے کے اصول عالمی تعلقات کی مضبوطی کیلئے بنیاد ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کانفرنس کے میزبان کی حیثیت سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مستحکم افغانستان ہماری ضرورت ہے‘ عالمی برادری افغان سرزمین کو دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے سے روکنے میں مدد کرے۔ قبل ازیں وزیراعظم شہبازشریف نے اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں کانفرنس کے شرکاء کا پرتپاک خیرمقدم کیا۔ اس موقع پر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار بھی انکے ہمراہ تھے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کانفرنس کے اختتام پر غیرملکی قیادتوں نے کانفرنس کیلئے پرسکون اور بہترین انتظامات پر وزیراعظم اور حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ چینی وزیراعظم نے دوبارہ پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا جبکہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے غیرمعمولی طور پر کامیاب ایس سی او کے انعقاد پر پاکستان کو مبارکباد دی اور کہا کہ اس کانفرنس کے ذریعے تجارت‘ مواصلات‘ توانائی اور دیگر شعبوں میں تعاون کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔ اس کیلئے ہمیں باہمی تعاون اور اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ظہرانے کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم پاکستان ایک ہی ٹیبل پر موجود تھے جنہوں نے باہمی ایشوز پر غیررسمی تبادلہ خیال بھی کیا۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کے بدخواہ عناصر کی جانب سے ایس سی او کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں کے باوجود یہ کانفرنس بھرپور انداز میں پرامن ماحول اور بھائی چارے کی فضا میں منعقد ہوئی جو پاکستان کیلئے کسی بڑے عالمی اعزاز سے کم نہیں۔ اس کانفرنس میں شرکت کیلئے وزیر خزانہ جے شنکر کی سربراہی میں بھارتی وفد پندرہ سال بعد پاکستان آیا اور جے شنکر نے جن نیک جذبات کا اظہار کیا‘ اس سے پاکستان اور بھارت کے مابین جاری کشیدگی کم ہونے اور دوطرفہ طور پر برف پگھلنے کا قوی امکان پیدا ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج ہمارے خطے بالخصوص پاکستان کو دہشت گردی اور ماحولیاتی آلودگی کے جو خطرات درپیش ہیں‘ ان میں بھی بنیادی طور پر بھارت کا عمل دخل ہے۔ افغان سرزمین سے بھارتی معاونت و سرپرستی اور فنڈنگ کے ساتھ ہی دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر اور دہشت گرد تنظیموں کو بھی بھارتی سرپرستی حاصل ہے جبکہ پاکستان میں پیدا ہونیوالی ماحولیاتی آلودگی میں بھی بھارتی کاشتکاروں اور صنعت کاروں کا عمل دخل ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے مابین حالات سازگار ہوں تو کم از کم ان ایشوز پر باہم مل بیٹھ کر کوئی نہ کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں بھارتی وزیر خارجہ کا ایس سی او کانفرنس میں یہ کہنا خاصا حوصلہ افزاء ہے کہ ایس سی او کے رکن ممالک کے مابین تجارت‘ مواصلات‘ توانائی اور دیگر شعبوں میں تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی۔ یہ حقیقت ہے کہ اس خطے میں دہشت گردی کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا‘ آلودگی سے پاک سازگار ماحول ہوگا اور توانائی کے بحران سے خطے کے کسی ملک کو واسطہ نہیں پڑیگا تو نہ صرف دوطرفہ اور علاقائی تجارت کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ پاکستان اور دوسرے رکن ممالک کی عالمی منڈیوں تک بھی رسائی آسان ہو جائیگی۔ 
بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر اور پانی کے تنازعات پر کشیدگی‘ منافرت اور دوریاں اس انتہاء تک جا پہنچی ہیں کہ دونوں ممالک کو باہمی دیرینہ تنازعات کے حل کیلئے ایک میز پر بٹھانے کیلئے کافی محنت اور مشقت درکار ہو گی اس حوالے سے ایس سی او کانفرنس میں دوطرفہ اور علاقائی تعاون کیلئے جو خوشگوار ماحول پیدا ہوا ہے‘ اس کی بنیاد پر ایس سی او کے رکن ممالک بالخصوص چین اور روس اپنا اپنا اثرورسوخ بروئے کار لاکر پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل پر پرامن ماحول میں ایک میز پر بٹھنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ ان مسائل کے حل کیلئے آج لوہا گرم ہے تو اس سے ایس سی او کو استفادہ کرنا چاہیے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے مابین یواین قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل میں عملی پیش رفت ہوجاتی ہے تو دیگر مسائل محض ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی خوش بیانی تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے۔ اگر پاکستان کی میزبانی میں منعقدہ شنگھائی سربراہ کانفرنس پاکستان اور بھارت کے مابین ماحول سازگار بنانے میں معاون بنتی ہے تو اس خطے کے عوام اور اقوام عالم کیلئے اس سے بہتر تحفہ اور کوئی نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان مائوننگ بھی یہ کہتے ہوئے رجائیت پسندی کا اظہار کر چکے ہیں کہ چینی وزیراعظم کے دورہ پاکستان سے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اور دفاعی تعاون کے امکانات بڑھے ہیں۔ اس تناظر میں توقع کی جا سکتی ہے کہ اس خطے کے دوطرفہ اور علاقائی مسائل کے حل کیلئے آنے والے لمحات کامیابیوں کی نوید لے کر آئیں گے۔

مزیدخبریں