اسلام آباد (وقائع نگار+ خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) سینٹ میں سمندر پار پاکستانیوں کی پراپرٹی کے لیے خصوصی عدالت کے قیام کا بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز چوہدری سالک حسین نے بل ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا جسے منظور کرلیا گیا۔ چوہدری سالک حسین کے مطابق بل کے تحت اب سمندر پار پاکستانیوں کے پراپرٹی تنازعات 90 روز میں حل ہوں گے۔ علاوہ ازیں ایس سی او کے کامیاب انعقاد پر سینٹ میں قرارداد منظور کر لی گئی۔ قرارداد شیری رحمان نے ایوان میں پیش کی۔ شیری رحمان کا قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایس سی او ایک کامیاب کانفرنس تھی، پاکستان کی جیو اکنامک پروفائل بڑھنے میں اس کا اہم کردار ہو گا، ایس سی او کے کامیاب انعقاد پر قرارداد پیش کر رہی ہوں۔ پی ٹی آئی نے اس پر دستخط نہیں کئے۔ علاوہ ازیں ایوان بالا میں سینیٹر علامہ ناصر عباس نے کہاکہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے، اگر سینیٹرز اور اراکین اسمبلی کو اغوا یا ہراساں کرکے آئینی ترامیم کرانی ہے تو یہ قابل مذمت ہے۔ سینیٹر علی ظفر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے کامیاب انعقاد کے حوالے سے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملک اور قوم کی خاطر اس اہم کانفرنس کے موقع پر اپنے احتجاج کو ملتوی کیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم قرارداد کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی کا حق ہے کہ وہ اپنے جائز حقوق کیلئے احتجاج کر سکتا ہے، ہر رکن پارلیمنٹ کا بھی یہ حق ہے کہ ان سمیت ان کے اہل خانہ محفوظ رہیں گے، اس قرارداد پر مجھے تحفظات ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کی سینیٹر نسیمہ احسان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے اراکین سینٹ نے شدید احتجاج کیا۔ سینیٹر نسیمہ احسان بھی بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مستعفی ہونے کی دھمکی دیدی۔ نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کی خاتون سینیٹر نسیمہ احسان نے کہاکہ چادر اور چار دیواری کی پامالی کی جارہی ہے، میرے ایک بھائی نے میرے بارے میں آواز اٹھائی ہے میں ان کی شکرگزار ہوں، ہر مسئلے کا حل موجود ہے اور مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔ اس موقع پر سینیٹر نسیمہ احسان بات کرکے آبدیدہ ہوگئیں اور بیٹھ گئیں جس پر اپوزیشن سینیٹرز اٹھ کھڑے ہوگئے۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ سردار اختر مینگل اسمبلی سے استعفیٰ دیکر جاچکے ہیں اور اب حکومت ان کے سینیٹرز کو کنٹرول کر نا چاہتی ہے، بلوچستان میں پہلے بھی آگ لگی ہوئی ہے، سینیٹر نسیمہ احسان کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے وہ قابل مذمت ہے، اس طرح سے ووٹ نہ لیں ہم عقل اور دلیل کی بنیاد پر ووٹ دیں گے مگر اس طرح سے ووٹ لینا جائز نہیں ہے۔ میری پارٹی کے لوگوں کو بھی دھمکایا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر اسحاق ڈار کے بھائی، اسلام آباد پولیس کے اہلکار کی شہادت، بنوں پولیس پر حملے میں شہید ہونے والے اہلکاروں اور دیگر کے لیے دعا مغفرت کی گئی۔ دعا مولانا عبدالغفور حیدری نے کروائی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ قومی اسمبلی اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے حکومتی سربراہان اجلاس کے کامیاب انعقاد پر قرارداد اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی۔ قرارداد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے پیش کی۔ قرارداد کے متن کے مطابق یہ ایوان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان حکومت کی کونسل کے 23 ویں اجلاس کے کامیاب انعقاد پر صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف، حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہے۔ یہ ایوان صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم محمد شہباز شریف، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، سابق سپکر صاحبان جنہوں نے علاقائی تعاون کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کیا، کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ یہ ایوان ایس سی او کے اہداف اور مقاصد کے حصول کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے مکمل حمایت کے عزم کے اظہار کو سراہتا ہے۔ لاہور میں نجی کالج کی طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کا معاملہ ایوان میں پہنچ گیا۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت نے پراپیگنڈا کیا۔ ملوث کرداروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ سپیکر نے ایوان میں وزیر داخلہ اور متعلقہ حکام کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا اور سیکرٹری داخلہ کو فوری طلب کرلیا۔ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ وزرات داخلہ سے جواب کون دے گا جس پر وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ وزارت داخلہ سے کسی کو بلائیں تو وہ جواب دے دیں گے جس کے بعد سپیکر نے سیکرٹری داخلہ کو طلب کرلیا۔ رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ دل چاہ رہا ہے محسن نقوی کو براہ راست ایک دفعہ دیکھ لو ں وہ کسی کمیٹی میں نہیں آتے ، جس پر سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ میں آپ کو وزیر داخلہ سے ملوا لوں گا ،نبیل گبول نے کہا کہ وزیر داخلہ قائمہ کمیٹی میں نہیں آتے، وزیر اعظم کسی کو وزیر مملکت داخلہ بنا دیں، میں دو دن تک پارلیمنٹ لاجز میں محصور رہا، دو دن تک انڈوں پر گزارا کرتا رہا سب کچھ بند کیا گیا تھا۔ وقفہ سوالات کے دوران وزیر اطلاعات ونشریات عطا تارڑ نے غیر ملکیوں کو پاسپورٹ جاری کرنے سے متعلق جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج ایک قرارداد بھی یہاں پر پیش کی جائے گی، ایک کامیاب ایس سی او سمٹ کا انعقاد کیا گیا، ستائیس سال بعد اتنے سربراہان مملکت پاکستان میں آئے، افغان شہریوں کی دستاویزات کی تین لیئرز پر ویریفکیشن کی جاتی ہے، پاسپورٹ جاری کرنے سے پہلے نادرا اس کو دیکھتا ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی غیر پاکستانی کا ایف آر سی جاری کیا جائے، ابھی تک یہ سامنے نہیں آیا کہ کسی غیر پاکستانی کو پاسپورٹ جاری کیا گیا ہو، پاسپورٹ آفس میں پورا سسٹم موجود ہے۔ پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے لاہور میں قوم کی بچی کے ساتھ ہونے والے مبیننہ واقعے کو ایوان میں اٹھایا اور کہا کہ اس مسئلے کی تفصیلات ایوان کو فراہم کی جائے، جس کا جواب دیتے ہوئے عطا تارڑ نے کہا کل وزیر اعلیٰ مریم نواز نے پریس کانفرنس کی، مریم نواز نے بتایا کہ یہ ایک سیاسی جماعت نے پروپیگنڈا کیا، اس معاملے پر بھرپور کارروائی کی جارہی ہے، اگر ایف آئی اے کو درخواست موصول ہوتی ہے تو کارروائی کی جائے گی، ایف آئی اے کے نئے رولز نے پرانے رولز کو تبدیل کیا۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے پاس نمبر موجود نہیں ہیں اور آئینی ترمیم کرنے جارہی ہے، اپوزیشن کا کوئی بھی بندہ ایوان میں موجود نہیں ہے، زین قریشی کی اہلیہ کو غائب کیا گیا۔ جناب سپیکر میں نے آپ کو فون کیا آپ کا شکرگزار ہوں آپ نے کہا کہ آئی جی پنجاب پولیس اس واقعے سے انکاری ہے، رات کو آپ کا پیغام آیا کہ وہ گھر پہنچ گئی ہے۔ زین قریشی کی اہلیہ کا سیاست سے کیا تعلق ہے۔ عمر ایوب نے کہا کہ مبین جٹ، جاوید وڑائچ کا کاروبار بند کردیا، حاجی امتیاز کے ملازمین کو مارا گیا۔ نمبر پورے نہیں ہیں تو پنگا کیوں لیا گیا۔ بانی چیئرمین سے مشورہ کرنا پڑتا ہے لیکن حکومت ملاقات کی اجازت نہیں دے رہی۔ ان ترامیم پر جلد بازی کیوں کی جارہی ہے۔ اختر مینگل کے سینیٹرز کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ پچیس مزید ایف آئی آرز میں میرا نام ڈال دیا گیا۔ عاطف خان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، پرسوں میرے گھر پر چھاپہ پڑا۔ پنجاب میں آپ کی وزیر میڈیا کو دھمکی دیتی ہے۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ ہمارے ہر ایم این اے کو ایک سے تین ارب کی آفر ہوئی، یہ کیسی ترمیم ہورہی ہے، یہ طریقہ کار یہی ہے۔ ہمیں شک ہے کہ ڈسکس ہونے والے ڈرافٹ کے پیچھے کچھ اور ہے۔ کیا پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح نہیں ہورہا۔ پہلی بار پارلیمنٹ کے اندر سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ زین قریشی کی اہلیہ کو اٹھایا گیا اس پر قرارداد آنی چاہیے۔ کسی کے ہاتھ میں بندوق ہے تو اس کامطلب یہ نہیں کہ اپنی مرضی سے استعمال کرے۔ ہم سمجھتے ہیں تمام ادارے ہمارے ہیں لیکن سب اپنے حدود میں رہیں۔ آپ اپنے اختیار کا غلط استعمال کررہے ہو، کے پی ہاؤس خیبرپختونخوا کی ملکیت ہے۔