شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس اعلامیہ…مرحباء

27 برس بعد پاکستان کی سرزمین میں بین الاقوامی اجتماع سے قوم شاداں ہے۔ 22 ممالک سے سربراہان مملکت ' وزرائے اعظم' وزرائے خارجہ' نائب صدر اور مبصرین کی شرکت نے انٹرنیشنل ایونٹ کی رونق دو چند کر دی۔ 25 کروڑ محبان پاکستانی قیادت اور شنگھائی تعاون تنظیم کے عہدیداروں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں جنہوں نے انٹرنیشنل ایونٹ کو کامیاب کرنے میں دلچسپی کے گلاب کھلائے۔ ہم 11 برس بعد بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،بہتر ہوتا ہے کہ عالمی کانفرنس میں وزیراعظم ننیدر مودی خود تشریف لاتے اور دیکھتے پاکستان اور پاکستانی قوم اپنے پڑوسیوں اور مہمان شخصیات سے کس حسن سلوک کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ہوسکتا ہے بنگلہ دیش اور کینیڈا  حکومت کی طرف سے بھارت کی'' عزت افزائی'' نے اسے محتاط نمائندگی پر مجبور کیا ہو۔ ایک اندازے کے مطابق شنگھائی تعاون کی تنظیم کے رکن ممالک عالمی آمدن وسائل کا چالیس فیصد کی حصہ دار ہیں ،چار ایٹمی طاقتیں رکن ممالک کی حیثیت سے شریک ہوئیں سب سے بڑھ کر ایس سی او 2024ء کا اعلامیہ رکن ممالک کے لیے خوش آئند اور سود مند ہے۔ میزبان ملک کی حیثیت سے وزیراعظم میاں شہبازشریف نے درست انداز میں عالمی منظر نامے کا نقشہ کھنیچتے ہوئے فلسطین اور کشمیر کی بابت مہذب معاشرے کی تشویش کا اظہار کیا۔ دنیا دو بڑے مسائل حل کئے بغیر کسی طرح خود کو انصاف' جرأت اور عوام دوست کہہ سکتی ہے؟ وزیر اعظم کا کہنا درست تھا کہ ہم اجتماعی دانش سے تمام رکن ممالک کے عوام کو زیادہ خوشحال ، مستحکم اورمحفوظ مستقبل دینے کی استعدادرکھتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے حوالہ سے افغانستان اہم ملک ہے ، سماجی اور اقتصادی طور پر مستحکم افغانستان تمام رکن ممالک کو بہتر رابطوں کے لیے قابل عمل اور اقتصادی طور پر فائدہ مند تجارتی اور ٹرانزٹراہداریاں پیش کر سکتا ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے مستحکم افغانستان بہت ضروری ہے،بین الاقوامی برادری کوجہاں انسانی بحران اور معاشی بدحالی کو روکنے کے لیے افغانستان کی عبوری حکومت کی مدد کے لیے درکار مدد فراہم کرنی چاہیے، وہیں اسے افغان عبوری حکومت سے سیاسی شمولیت کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ افغانستان سرزمین کسی بھی ادارے یاتنظیم کے ذریعے اس کے پڑوسیوں کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہوں۔ اقتصادی تعاون ایس سی او کااہم نکتہ ہے، ٹرانسپورٹ اور توانائی کی راہداری جیسے علاقائی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری اقتصادی انضمام کے لیے بہت ضروری ہے۔پاکستان اس ضمن میں 2030 تک توانائی کے شعبہ میں تعاون کے فروغ کیلئے حکمت عملی سے متعلق شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کی کونسل کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کی ایسوسی ایشن کے قیام کا خیرمقدم کرے گا۔ پاکستان ایک مضبوط ایس سی او کنیکٹیویٹی فریم ورک کے قیام کی پرزور حمایت کرتا ہے جس سے نہ صرف علاقائی تجارت کے لیے گیٹ وے فراہم ہوگی بلکہ یورو ایشیائی رابطے اور تجارت کے وڑن کو بھی اگلی سطح تک لے جایا جاسکے گا، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ، چین پاکستان اقتصادی راہداری اور انٹرنیشنل نارتھ سائوتھ کوریڈورجیسے منصوبوں کو سڑکوں، ریلوے اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے رابطوں میں بہتری کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی سرحدوں کے اندر کرہ ارض پر غریب آبادی کی سب سے بڑی تعداد کی موجودگی ہمیں غربت کے خاتمے کے لیے قریبی تعاون کرنے پر مجبور کرتی ہے، ایس سی او کے خصوصی ورکنگ گروپ کے مستقل چیئر کے طور پر غربت سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے متعدد مشترکہ سیمینارز، ویبنارز کا انعقاد کیا جس کا مقصد علم اور بہترین طریقوں کے ذریعے غربت سے نمٹنے کیلئے اقدامات کویقینی بنانا ہے ، ہم غربت کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے اپنی اجتماعی کوششوں میں اپنا کردارجاری رکھیں گے اور رکن ممالک کو اپنی مکمل اقتصادی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے ، پائیدار ترقی اور اپنے شہریوں کے مجموعی معیار زندگی کو بہتر بنانے کے قابل بنائیں گے۔ غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیاں انسانیت کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں کیونکہ اس کی تباہی بہت زیادہ ہے اور سرحدوں سے ماوراء ہے ، موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنا اور ایس سی او کے خطے کے اندر ماحولیات کا تحفظ، پائیدار ترقی، اقتصادی استحکام اور سماجی بہبود کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ اقدامات ضروری ہیں پاکستان موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں سرفہرست ہے، پاکستان رکن ممالک کے درمیان ماحولیاتی تعاون کوفروغ دینے اورموسمیاتی موزونیت کاحامی ہے تاکہ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے، پاکستان ماحولیاتی تحفظ سے متعلق حال ہی میں ہونے والے ایس سی او معاہدے کا خیرمقدم کرتا ہے اور رکن ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ علاقائی اور عالمی سطح پر ایسی تمام کوششوں میں فعال طور پر تعاون کویقینی بنائے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیہ میں انسداد غربت' وسائل کی منصفانہ تقسیم' تجارت 'سائنس وٹیکنالوجی میں تعاون اور نئی ریسرچ کے تبادلہ کو اہمیت دی یہ درست ہے کہ شنگھائی کانفرنس ایسے ماحول میں ہوئی جب مسائل اور ناانصافی نے گلوبل ویلج کو اطراف سے گھیرا ہوا ہے 7 ارب انسانوں کو مسائل ومشکلات اور چھوٹی ریاستوں کو بھوک ،خوراک اور جنگوں سے بچانے کے لیے مہذب اور انصاف پسند ممالک کو آگے آنا پڑے گا یہ ندائے حق بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی !!

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی ذہانت کا جہاں حیرت

 پہلے چاند پر جانے کی بات ہوتی تو لوگ حیران رہ جاتے لیکن جب انہوں نے عملی طور پر دیکھا تو انہیں یقین آیا یہ سب انسانی دماغ کا ...